|

وقتِ اشاعت :   January 20 – 2016

کوئٹہ: پاکستان میں کوئی ادارہ آزاد نہیں ہے‘ کیس کرنے کا مقصد یہاں کی جمہوریت کو بے نقا ب کرنا تھا، دوستوں کے ساتھ مشاورت کے بعد ہی پھر اپیل دائر کرونگا،چوہدری شجاعت نے خود کہا تھا کہ جنرل پرویز مشرف نواب اکبر بگٹی کو قتل کرنا چاہتا ہے، نواب اکبر بگٹی قتل کے اہم کردار مشرف کو بری کرنے کے بعد دیگر تین نامزد افراد کو سزاملنے کی کوئی توقع نہیں ہے، براہمداغ بگٹی پاکستان آنے کو تیار نہیں‘ اُن کے بیان کو توڑمروڑ کر پیش کیا گیا ہے‘ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اور وفاقی وزیر جنرل عبدالقادر پیغام رسائی کا کردار ادا کرنے گئے تھے جس پر براہمداغ بگٹی نے اپنا واضح مؤقف پیش کیا تھا‘ بلوچ اور پشتون کے وحدت کو الگ کرکے ریفرنڈم کیاجائے پھر واضح ہوگا کہ بلوچ کیا چاہتے ہیں، افغان مہاجرین کو شناختی کارڈ اجراء کرنے کا مقصد یہی تھا کہ انہیں 2013ء کے جنرل الیکشن میں استعمال کرنا تھا جو سچ ثابت ہوا۔ ان خیالات کااظہار نوابزادہ جمیل بگٹی نے ’’روزنامہ آزادی‘‘ سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ نواب اکبرخان بگٹی کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل بگٹی کا کہنا ہے کہ پاکستان میں عدلیہ 99 فیصد آزاد نہیں ہے‘ اپنے والد نواب اکبرخان بگٹی کے کیس کو قانونی طریقے سے لڑنے کا مقصد یہی تھا کہ یہاں کے ادارں سمیت جمہوریت کو بے نقاب کرنا تھا کیونکہ مجھے پہلے سے معلوم تھا کہ کسی کو بھی سزا نہیں ملے گی۔ انہوں نے کہاکہ نواب اکبرخان بگٹی کے قتل میں ملوث سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف کو جب سزا نہیں ملی تو باقی نامزد ملزمان کو کس طرح سزا دی جائے گی۔ انہوں نے کہاکہ مشرف ایک دن بھی عدالت میں پیش نہیں ہوا پھر بھی اسے بری کردیا گیاجو خود حقیقت کا آشکار کرتی ہے‘ اب دیگر نامزد افراد کو کس طرح سزا دی جاسکتی ہے ‘ شوکت عزیز کے متعلق عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ اُس کی جائیداد کو صبط کیاجائے مگر حکومت نے کوئی کارروائی نہیں کی جبکہ اویس غنی اسلام آباد میں بیٹھے ہوئے ہیں مجھے صرف یہ بات ثابت کرنی تھی کہ نواب اکبر بگٹی قتل کیس سمیت بلوچوں کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ انہوں نے کہاکہ کیس کی دوبارہ اپیل کے متعلق وکلاء اور دوستوں سے مشاورت کرکے پھر فیصلہ کرونگا۔انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بلوچوں سے بہت بڑا ڈرامہ رچایا ‘ افتخار محمد چوہدری کو میڈیاکے ذریعے کہاتھا کہ آپ ڈیرہ بگٹی کا دورہ کریں اور صورتحال کا جائزہ لیں مگر انہوں نے ایڈووکیٹ ظہور شاہوانی کی سربراہی میں ٹیم تشکیل دیتے ہوئے ڈیرہ بگٹی دورہ کرنے کا کہا مگر ایڈووکیٹ ظہور شاہوانی نے کہاکہ میرے ساتھ کوئی تعاون نہیں کررہا میں کس طرح جاسکتا ہوں‘ انہوں نے کہاکہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان نے پھر سابق چیف جسٹس بلوچستان قاضی فائز عیسیٰ کو ڈیرہ بگٹی کا دورہ کرنے اور حالات کا جائزہ سمیت تمام صورتحال سے آگاہی فراہم کرنے کیلئے کہا مگر اسے سوئی سے واپس کردیا گیامگر قاضی فائز عیسیٰ نے بھی لب کشائی تک نہیں کی اور نہ ہی میڈیا کے توسط سے اپنا مؤقف سامنے لایا۔ نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے کہاکہ میں نے اپنے اخباری بیان کے ذریعے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو متوجہ کرتے ہوئے کہاکہ آپ خود ڈیرہ بگٹی کا دورہ کریں مگر انہوں نے نہیں کیا کیونکہ میں تمام حقائق سے آگاہ ہوں۔انہوں نے کہاکہ یہاں جمہوریت نہیں ہے آج بھی پارلیمنٹ آزاد نہیں ہے‘ 2013ء کے الیکشن کے متعلق میں نے پہلے کہاتھا کہ کون سی جماعت برسرِاقتدار آئے گی اور ہمارے علاقے سے کون ایم پی اے بنے گا جو آج درست ثابت ہوا۔ انہوں نے کہاکہ 17مارچ 2005 کے دوران ڈیرہ بگٹی میں بمباری کی گئی جس کے نتیجے میں ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے 66 افراد ہلاک ہوئے‘ جس کے بعد 15رکنی پارلیمانی کمیٹی نے ڈیرہ بگٹی کا دورہ کیا اور میں نے تمام علاقوں کا دورہ کرایا انہوں نے صورتحال دیکھا تو خود پارلیمانی کمیٹی کے ممبران نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اس بمباری کا مقصد نواب اکبربگٹی کو قتل کرنے کا منصوبہ ہے اور یہ برائے راست نواب اکبرخان بگٹی پر قاتلانہ حملہ ہے اور یہی بات درست ثابت ہوئی 26 اگست 2006ء کو نواب اکبر خان بگٹی کو شہید کردیا گیا۔انہوں نے کہاکہ آج بھی نواب اکبرخان بگٹی کی قبر کشائی نہیں کی گئی اور میں یہ نہیں سمجھتا کہ تابوت میں نواب اکبرخان بگٹی کی جسد خاکی ہو کیونکہ کفن اور تابوت کے اندر کون ہیں کوئی نہیں جاتا اور وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ آج جو برسرِ اقتدار ہیں وہ بالکل بے بس ہیں بلکہ میں یہ کہتاہوں کہ پاکستان میں کوئی ادارہ آزاد نہیں ہے۔ کیس لڑنے کا مقصد یہاں کی جمہوریت سمیت اداروں کو بے نقاب کرنا تھا۔انہوں نے کہاکہ چوہدری شجاعت نے ایک نجی ٹی وی کو انٹرویو کے دوران خود اعتراف کیا تھا کہ سابق آرمی چیف جنرل پرویز مشرف نواب اکبر خان بگٹی کو قتل کرنا چاہتے تھے جس کی ویڈیو بھی موجود ہے۔ انہوں نے کہاکہ عدلیہ کی آزادی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ لاپتہ بلوچ افراد آج تک بازیاب نہیں ہوئے جس پر صرف سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے خود کو چمکایا اصل میں وہ خود بھی اپنے فیصلوں پر آزاد نہیں تھے صرف یہاں کے لوگوں کے جذبات کے ساتھ کھیلتا رہا اگر چوہدری افتخار کے فیصلے اتنے بااثر ہوتے تو اس کے آثار بھی دکھائی دیتے مگر ایسا کچھ نہیں ہوا۔ انہوں نے کہاکہ پشتون اور بلوچ علاقوں کو الگ کرکے بلوچ علاقوں میں ریفرنڈم کیاجائے کہ بلوچ کیا چاہتے ہیں جو اسکاٹ لینڈ میں بھی ہوا جو جمہوریت کی عکاس ہے مگر یہاں جمہوریت نہیں ہے ۔ انہوں نے کہاکہ پشتونخواہ میپ اپنے نعرے پر عمل کرکے جنوبی پشتونستان بنائے آج وہ حکومت میں ہیں اور وہ تمام بلوچ علاقے جو دیگر صوبوں میں شامل کیے گئے ہیں اُن کو پھر بلوچ علاقوں میں شامل کیاجائے تاکہ بلوچ وحدت اپنی جگہ برقرار رہے پھر اقوام متحدہ کی زیرنگرانی ریفرنڈم کیاجائے جو بھی فیصلہ بلوچ قوم کرے گی وہ قبول ہوگامگر مجھے یقین ہے کہ ایسا کرنے کیلئے پاکستان تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہاکہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی کے بیان کو توڑ مروڑ کرکے پیش کیا گیا ہے کیونکہ براہمداغ بگٹی نے واضح لفظوں میں کہاتھا کہ بلوچ قوم کی اکثریت جو چاہتی ہے میں وہی کرونگامگر اس بیان میں توڑ مروڑ کرپیش کیا گیا جو قابل افسوس عمل ہے۔ انہوں نے کہاکہ مجھے نہیں لگتا کہ براہمداغ بگٹی پاکستان آئینگے کیونکہ براہمداغ بگٹی نے واضح طور پر اپنا بیان دیا ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ براہمداغ بگٹی نے مذاکرات کی بات کی ہے مگر انہوں نے ساتھ میں یہ بھی کہاہے کہ ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ اور جنرل عبدالقادر بلوچ بے اختیار ہیں اصل طاقت فوج کے پاس ہے اور انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ہم سیاسی طریقے سے بلوچستان مسئلے کا حل چاہتے ہیں مگر اِس میں بلوچ قوم کی اکثریتی رائے شامل ہو اور مقتدرہ قوت جس کے پاس طاقت اور اختیار دونوں ہیں پھر بات چیت ہوگی وگرنہ بات چیت کا معاملہ آگے نہیں بڑھے گا۔