|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2013

cjpاسلام آباد (آئی این پی) سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے انصاف کی فراہمی میں ساتھ دینے والے تمام ججز کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہے کہ میرے پاس اپنے ساتھی ججز کی تعریف کے الفاظ نہیں ہیں، امید ہے کہ سپریم کورٹ نئے چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی کی قیادت میں بنیادی انسانی حقوق کے لئے کام کرتی رہے گی، سپریم کورٹ نے سینکڑوں کیسز میں عوامی مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے انصاف فراہم کیا،آج کی سپریم کورٹ شفافیت اور احتساب کے لئے کام کر رہی ہے، آزادانہ اور شفاف انتخابات کے بغیر جمہوریت ممکن نہیں، ایسا لگتا ہے کہ ملک کے ایگزیکٹو کرپشن کے کیسز کو ختم کرنے میں بے بس ہیں،عدلیہ بحالی میں میڈیا کا کردار لازوال ہے، عدلیہ بحالی کے لئے تمام ججز، وکلاء، سیاسی ورکرز اور طلبہ نے جدوجہد کی، خدا کرے آنے والی عدلیہ بنیادی انسانی حقوق اور آئین و قانون کی بالادستی کے لئے کام کرے۔وہ بدھ کو اپنی سبکدوشی کے موقع پر اپنے اعزاز میں دیئے گئے فل کورٹ ریفرنس سے الوداعی خطاب کر رہے تھے۔وہ بدھ کو ریٹائرمنٹ کے موقع پر فل کورٹ ریفرنس کی تقریب سے الوداعی خطاب کررہے تھے ۔انہوں نے کہا کہ میرے لیے یہ انتہائی باعث عزت ہے کہ میں آپ تمام سے مخاطب ہوں۔ میں ابتداء میں اﷲ تعالیٰ سے دعاگو ہوں کہ وہ نظامِ عدل کے انتظام، بشمول جج صاحبان اور عدالتی عملہ پر رحمتیں نازل کرے۔ ہمیں اﷲ بصیرت اور استقلال عطا فرما ئیں کہ ہم ان مسائل پر قابو پا سکیں جنہوں نے قوم کو مصیبت میں ڈال دیا۔اورآئندہ سالوں کی عدلیہ آئین میں واضح کردہ بنیادی حقوق اور سائیلین کو آزادانہ منصافانہ اور فوری انصاف فراہم کر سکے۔ آج میں اعلیٰ عدلیہ کے رکن کا مقدس لباس دو عشروں سے زائد عرصہ کے بعد اتار رہا ہوں اس میں بطور جج سپریم کورٹ اور 8سال چیف جسٹس کی مدّت شامل ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے لیے جمہوری ریاست کا تصّور پیش کیا تھا۔ بطور نا قابل تسخیر وکیل اور پالیمنٹیرین انہوں نے خود کو مثالی جمہوریت کے لیے وقف کر دیا۔ جبکہ ہم قائد اعظم کے تصّور کے مطابق زندگی گزارنے میں ناکام ہو چکے ہیں۔اس کو مارشل لاء کے قابل نفرت تصور سے تبدیل نہیں کیا جا سکتا، نہ جانے ماضی میں عدالتوں نے ایسے اقدامات کی توثیق کی۔انہوں نے کہا کہ جیسا بھی ہے ،9مارچ 2007کو عوام کے ضمیر نے بہتری کی طرف رُخ کیا۔ آپ، جج صاحبان، وکلاء ، سول سوسائٹی کے سر کردہ ، سیاسی اراکین اور طلباء دستوریت، قانون کی حکمرانی اور عدلیہ کی خود مختاری کو بچانے کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں اپنے ان برادار جج صاحبان کی دیانت داری کا احاطہ کر سکوں جن کو 3نومبر 2007کے اقدامات کی پیروی میں اعلیٰ عہدہ سے ہٹا دیا گیا۔انہوں نے کہا کہ عدالت عظمیٰ اور عالیہ کے وہ جج صاحبان دنیا میں خراج تحسین کے اہل ہیں جنہوں نے آمر کے سامنے گردن جھکانے سے انکار کر دیا اور عدلیہ کی خودمختاری کی حفاظت میں کردار ادا کیا ۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ یہ صرف جج صاحبان کی کوششیں نہیں تھیں۔ عدلیہ کی آج کی خودمختاری تمام وکلاء برادری کی انتھک جدوجہد کا نتیجہ ہے۔انہوں نے کہا کہ وکلاء تحریک کے دوران اعلیٰ عہدہ سے ہٹائے گئے جج صاحبان ہی متاثر نہیں ہوئے۔ عام وکلاء جو کبھی خبروں کی سرخیاں نہیں بنے انہوں نے مہینوں تک عدالتوں میں جانے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اپنا روزگار اور مستقبل اعلیٰ مقصد کے لیے قربان کر دیا۔انہوں نے کہا کہ ایک ایسا اعلیٰ مقصد جس کی سمجھ بوجھ زیادہ عوام کو نہیں۔ اور نہ ہی وہ سمجھنا چاہتی تھی لیکن وہ عدلیہ کی آزادی کی اہمیت سے آگاہ تھی۔ وہ جانتے تھی کہ یہ ان کے لیے موقع ہے کہ وہ اپنے سے اعلیٰ کسی امر کا حصّہ بن جائیں، ایک ایسا موقع کہ ملک میں مثبت تبدیلی آجائے۔ قانونی اکھاڑے میں عوامی کردار نے وکلاء اور جج صاحبان کو اہم موقع دیا کہ وہ لوگوں کو موجودہ معاشی طریقہ اور اس میں مقام سمجھنے کی تعمیر نو کر سکیں۔انہوں نے کہا کہ وکلاء تحریک میں جج صاحبان کانڈر کردار ہیچ ہوگیا جبکہ یہ بار کی مدد میں نہ تھا۔ وکلاء تحریک کی جمہوریت بحالی کی گراں قدر خدمات کو دستوری اساسوں میں قدر شناسی کی گئی ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کی غیر جانبدارانہ اور با مقصد رپورٹنگ بھی قابلِ داد ہے۔ وکلاء تحریک کے دوران میڈیا پر شدید دباؤ ڈالا گیا لیکن انہوں نے اصولی نقطہ نظر سے ہٹنے سے انکار کر دیا۔ عدلیہ کی بحالی کے بعد یہ میرا اور میرے برادر جج صاحبان کا لازمی فرض تھا کہ ہم یقینی بنائیں کہ آئندہ اس طرح کسی غاصب کو غیر آئینی طور پر پاکستان کی عوام پر اپنی مرضی مسلط کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ سپریم کورٹ نے سندھ ہائیکورٹ کے مقدمہ میں یہ قرار دینے کی سعی کی کہ کسی اتھارٹی کے اختیارات کو ہاتھ میں لینا بظاہر ایک کھلا غیر قانونی فعل ہے جبکہ ایسا آئین میں وضع نہ ہو ۔ ایسا خطرناک قدم کوئی عدالت تسلیم نہیں کرے گی اور اِس مد میں کسی جج کا کوئی بھی قدم آئین کے آرٹیکل 209کے تحت غیر اخلاقی حرکت کے زمرہ میں ہوگا ۔انہوں نے کہا کہ اِس حوالہ سے پارلیمنٹ کا کردار بھی قابلِ ستائش ہے کہ اس نے آمر کے غیر آئینی اقدامات کی توثیق نہیں کی۔ اِس فیصلہ نے یقینی بنایا کہ ملک میں حکمرانی مکمل طور پر آئین کے مطابق ہو۔ اب آئندہ کوئی ریاستی عہدہ دار آمرکے غیر آئینی اِقدامات کی معاونت اور تحفظ کی جرات نہیں کر سکتا۔یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ عدالت نے انصاف اور جمہوری اداروں کی تشکیل کے تناظر میں صدر آصف علی زرداری کا جمہوری انتخاب برقرار رکھا اگرچہ اُس نے عبوری آئینی حکم (PCO)کے تحت چیف جسٹس سے حلف لیا تھا ۔ جبکہ ایسا نوزائیدہ جمہوری عمل کے جاری رہنے کے عمل کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ۔ ہم نے نفاذ کے مقدس نظریہ کو دائمی کرنے کی کوشش کی ہے جس کو عالمی سطح پر حقِ زندگی سے ترجیح دی گئی ہے اور اِس نظریہ کو جسٹس سلیم اختر نے شہلا ضیاء کے مقدمہ میں مہارت سے اُجاگر کیا ۔ہم نے اِس اصول کو برقرار رکھنے کی کوشش کی اور حقِ زندگی کے مفہوم کو وسیع کیا تاکہ اِ س امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ کسی کا حقِ زندگی اور آزادی تلف نہ ہواور اِس کو قانون کے تحت تحفظ دیا گیا ہم نے بالخصوص کراچی میں امنِ عامہ کی دگر گوں صورتِ حال کا نوٹس لیا، جہاں منصوبہ بندی سے قتل و غارت، مافیا اور منشیات ، لوگوں کی زندگی ، تحفظ اور امن کے لیے خطرہ بن رہے ہیں، سپریم کورٹ کو ایسے اہم مسائل کا نوٹس لینا جاری رکھنا چاہیئے کہ جہاں بنیادی حقوق ، بالخصوص زندہ رہنے کے حق کو روزمرہ کی بنیاد پر خطرہ لاحق ہو۔ اسی طرح عدالت نے صوبہ بلوچستان میں بڑھتی ہوئی عسکریت کے ضمن میں بھی ہدایات دیں۔ بدقسمتی سے عدالتی احکامات کو معنی و مفہوم کے مطابق نافذ نہیں کیا گیا ۔ گمشدہ افراد کے مقدمات بھی قابلِ توجہ ہیں۔ عدالت نے گمشدہ افراد کے مقدمات میں بار بار نوٹسز جاری کیے لیکن انتظامی عہدہ داران نے ان کی اکثر عدم تعمیل کی۔ ملک میں امن اور حالات کو معمول پر لانے کے لیے ، ہر ایک انفرادی طور پر ، بشمول جج صاحبان ، وکلاء ، قانون کے افسران ، تفتیشی اور پراسیکیوشن ایجنسیاں اور سائیلین اپنا کردار ادا کرنے کے پابند ہیں ۔ امن کے بغیر معاشی ترقی اور خوشحالی نہیں ہو سکتی ۔انتظامیہ کی پہلی ذمہ داری ملک میں قانون کی بالادستی کو یقینی بنانا ہے۔انہوں نے کہا کہ اگر انتظامیہ اپنی ذمہ داری ادا کرنے میں ناکام ہوتوعدلیہ پابند ہے کہ وہ انتظامیہ کی مدد کرے۔یہ اکثر کہا گیاہے کہ عدلیہ آئین کا ضرورتحفظ کرے۔عدلیہ کا اختیار ہے کہ وہ عوام کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں ،اختیارات کے غلط استعمال اور مطلق العنانی سے تحفظ فراہم کرے۔انہوں نے کہا کہ ان کو یقینی بنانے کے لئے عدلیہ پچھلے چند سالوں سے درپیش مشکلات سے نبردآزما ہے تاکہ نظام عدل کو مزید بہتر کیا جاسکے ۔ایسے مقدمات مفاد عامہ کی بنیاد پر اٹھائے گئے بدیں امر ہمیں تنقید کا نشانہ بنا یا گیا کہ یہ پالیسی معاملات ہیں جو کہ انتظامیہ کا دائرہ کار ہیں۔ہم نے درحقیقت منصفانہ اور شفافیت کے صراحتی اصولوں کو ملحوظ خاطر رکھے بغیر بنائی گئی پالیسی سے شہریوں کے بنیادی حقوق کو تحفظ دینے کی کوشش کی ہے۔