|

وقتِ اشاعت :   February 23 – 2015

کراچی: سپریم کورٹ کے سابق قائم مقام چیف جسٹس رانا بھگوان داس 73 برس کی عمر میں وفات پاگئے۔ وہ دل کے عارضے میں مبتلا تھے اور نجی اسپتال میں زیرعلاج تھے۔ وہ پاکستان کے نہایت قابل احترام ججز میں سے ایک تھے۔ فوجی حکمران پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں پیدا ہونے والے عدالتی بحران کے دوران انہوں نے 2007ء میں سپریم کورٹ کے قائم مقام چیف جسٹس کے فرائض انجام دیے۔ علاوہ ازیں 2005ء سے 2006ء کے دوران جب اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بیرون ملک دوروں پر گئے تو بھی رانا بھگوان داس نے مختصر مدت کے لیے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے فرائض سنبھالے تھے۔ رانا بھگوان داس پہلے ہندو اور دوسرے غیر مسلم فرد تھے، جنہوں نے پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت کے سربراہ کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بطور جج ریٹائرڈ ہونے کے بعد 2009ء میں انہیں فیڈرل پبلک سروس کمیشن آف پاکستان کا چیئرمین بنادیا گیا۔ گزشتہ سال رانا بھگوان داس کو چیف الیکشن کمیشن بنانے پر حکومت اور حزبِ اختلاف کا اتفاق ہوگیا تھا، لیکن انہوں نے یہ عہدہ سنبھالنے سے معذرت کرلی تھی۔ جسٹس رانا بھگوان داس 20 دسمبر 1942ء کو سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں ہندو راجپوت گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے قانون اور اسلامک اسٹڈیز میں ماسٹرز کیا۔ 1965ء میں انہوں نے بار کونسل میں شمولیت اختیار کی اور دو سال بعد لاڑکانہ کے معروف وکیل عبدالغفور بھرگڑی کے ساتھ قانون کی پریکٹس کرنے لگے۔ بعد میں وہ سیشن جج بن گئے اور اس کے بعد سندھ ہائی کورٹ کے جج کے عہدے پرفائز کیے گئے۔ وہ ناصرف کرکٹ کے بڑے مداح تھے بلکہ پاکستانی کرکٹ ٹیم کو ہمیشہ سپورٹ بھی کرتے رہے۔ رانا بھگوان داس کو 1994ء کے دوران سندھ ہائی کورٹ میں ترقی دی گئی۔ 1999ء میں ان کی عدالتِ عظمیٰ میں تقرری کو چیلنج کردیا گیا۔ ان کے اور حکومت پاکستان کے خلاف ایک آئینی پٹیشن (1069/1999) دائر کی گئی۔ اس پٹیشن میں مطالبہ کیا گیا تھا کہ جسٹس رانا بھگوان داس پر مشتمل عدالتی بینچ کو غیر آئینی قرار دیا جانا چاہیے، اس لیے کہ رانا بھگوان داس غیرمسلم ہیں اور اعلیٰ عدالتوں میں صرف مسلمان جج ہی مقرر کیا جاسکتا ہے۔ اس پٹیشن کو مسترد کردیا گیا تھا، اور ہائی کورٹ کے ججوں اور دیگر معروف وکلاء کی جانب سے درخواست گزار کی مذمت کی گئی تھی۔ 2000ء میں انہوں نے پرویز مشرف کی حکومت کے پی سی او کے تحت سپریم کورٹ میں شمولیت اختیار کی۔ یاد رہے کہ جسٹس بھگوان داس نے خیبر پختونخوا میں ایک لڑکی کے اغوا اور اس کو چار سال تک جسم فروشی پر مجبور کرنے کے کیس کا سخت نوٹس لیا تھا۔ رانا بھگوان داس پاکستان کے آئین اور اس کے قانونی نظام کی حرمت پر یقین رکھتے تھے۔ انہوں نے واضح کیا کہ پاکستان میں تمام مذہبی برادریوں کے لیے قانون برابر ہے۔ انہوں نے صوبے کے دیہی علاقوں میں عزت کے نام پر خواتین کے قتل کے خلاف بھی آواز بلند کی۔