|

وقتِ اشاعت :   September 7 – 2015

کوئٹہ:  وفاقی حکومت کے ایک اعلیٰ افسر اور وزیراعظم کے مشیر نے حال ہی میں کوئٹہ کا دورہ کیا تاجروں سے باتیں کرتے ہوئے انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا کہ بلوچستان میں بجلی کی ترسیل کا نظام پرانا اور بوسیدہ ہے اور یہ 700 میگاواٹ سے زیادہ بجلی کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا اس افسر اعلیٰ نے بلوچستان کے عوام کو صاف الفاظ میں بتای دیا کہ موجودہ صورتحال میں انہیں صرف 700 میگاواٹ بجلی ملے گی اور مستقبل قریب تک اس میں اصلاح یا اضافہ کی گنجائش نہیں بلوچستان کی بجلی کی ضروریات 1600میگاواٹ ہے اور بلوچستان 2400میگاواٹ بجلی پیدا کرتا ہے 700 میگاواٹ مقامی صادقین کے لئے باقی بجلی کراچی اور پنجاب کیلئے، ان بجلی گھروں میں دو ڈیرہ مراد جمالی، ایک کوئٹہ اور دوسرا حب میں ہے گزشتہ صوبائی حکومت کے پاس اضافی فنڈ تھے اور اس نے یہ اعلان کیا تھا کہ کوئلہ سے چلنے والے کم سے کم دو پاور پلانٹس حکومت بلوچستان لگائے گا ابھی تک ان بجلی گھروں کا پتہ نہیں کہ کہاں ہیں نہ ہی سرمایہ کاری سے متعلق لوگوں کو معلومات ہیں واضح رہے کہ بلوچستان میں بجلی صرف گھریلو استعمال کیلئے سوائے چند ایک کاروباری اداروں، ہسپتال چند صنعتی یونٹوں کے، واضح رہے کہ پورے لسبیلہ ضلع میں بجلی کراچی الیکٹرک فراہم کرتی ہے قومی گرڈ سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہے جہاں تک مکران ڈویژن کا تعلق ہے اس کو بجلی ایران سے مل رہی ہے اور مکران قومی گرڈ سے منسلک نہیں ہے اس کے علاوہ صوبے کے 10بڑے شہر اور آبادیوں کے الگ جنریٹرز نصب کئے ہیں چند ایک عرب شیوخ نے خیرات کے طور پر عوام کے فائدے کیلئے لگائے ایک آدھ عرب شیخ شکار کیلئے آئے واپسی پر جنریٹرز چھوڑ گئے وفاقی حکومت کو یہ کبھی پرواہ نہیں کہ دور دراز علاقوں کے لوگ بھی اس ملک کے شہری ہیں چاہے وہ دوسرے درجے کے کیوں نہ ہوں ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا جائے ایک وسیع او رعریض علاقہ مکران ڈویژن اور لسبیلہ ضلع کے قومی گرڈ سے منسلک ہیں ان علاقوں کے افراد کیسکو کے ایس ڈی او کے رحم وکرم پر ہیں کہ وہ کتنا تیل چوری کریں اور لوگوں کو کتنی بجلی فراہم کریں ہماری خبروں کے کالم میں بہت سے خبریں آج چھپی ہیں جس میں یہ کہا گیا ہے کہ نوکنڈی جیسے اہم معدنیات پیدا کرنے والے شہر میں چار دن سے بجلی نہیں ہے قلات سے خبر آئی کہ وہاں دن میں صرف 4گھنٹے بجلی دی جارہی ہے قلات قومی گرڈ سے منسلک ہے حکمران یہ کہتے نہیں تھکتے کہ وہ بیرونی اور مقامی سرمایہ کاری کو مکمل تحفظ دیں یہ ایک رسمی بیان ہے جو ہر آنے والا وزیراعلیٰ دیتا رہتا ہے مگر کوئی حاکم ان کو سہولیات فراہمی کی بات نہیں کرتا صرف اپنی قوت بازو کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ان کی حکومت کتنی طاقتور ہے بلوچستان کا سب سے اہم ترین اور مشہور ترین شہر گوادر پورٹ سٹی ہے جہاں پر لوگوں کو پینے کا پانی میسر نہیں ہے وہاں بجلی نہیں ہے دور دور تک بنیادی ڈھانچے کا تصور ہی نہیں ہے بھلا بندر گاہ کیسے چلائی جائے گی فرم اور کمپنیاں اپنی ہر چیز ساتھ نہیں لا سکتی ان کیلئے حکومت کے پاس دینے کو کچھ بھی نہیں ہے سڑک صرف ایک ساحلی شاہراہ ہے جو فوج کے سربراہ اور سابق صدر پرویز مشرف کے حکم سے تعمیر ہوئی اگر کوئی اور ہوتا تو اس کی حکم عدولی ضرور ہوتی چونکہ پرویز مشرف کے پاس فوج کی کمان بھی تھی اس لئے اس کے حکم کی تعمیل ہوگئی جو کچھ انہوں نے گوادر کیلئے کیا کام وہیں پر آج تک رکا ہوا ہے ایک انچ بھی آگے نہیں بڑھا 15سال سے حکومت نے ایئرپورٹ کیلئے زمین تک نہیں خریدی اس کو تعمیر کرنا درکنار، اسی سال گوادر پورٹ پر ریلوے یارڈ کی تعمیر کیلئے چند کروڑ روپے بجٹ میں رکھے ہیں مختصر ترین الفاظ میں سرمایہ کاری کا ماحول ہی فراہم نہیں کیا گیا اور نہ ہی کسی حکومت نے اس جانب کبھی توجہ دی صرف بیانات پر گزارا کیا گیا جہاں تک بجلی کی ترسیل کا تعلق ہے حکومت یا کیسکو نے کبھی عوام الناس کو اعتماد میں نہیں لیا اان کے نظام کی درستگی اور اس کو بہتر بنانے کے کیا منصوبے ہیں کیسکو افسران اور انجینئروں کو ذاتی مفادات کے تحفظ کرنے سے فرصت نہیں وہ کیونکر بجلی کا نظام بہتر بنائیں حالیہ دنوں میں وزیراعلیٰ جو بلوچستان کے منتخب منتظم اعلیٰ ہیں نے دعویٰ کیا ہے کہ کیسکو کے افسران آئے دن مزید فنڈ کا مطالبہ کرتے ہیں اسکیموں پر عملدرآمد نہیں کرتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ اس کی لاگت میں اضافہ ہوا ہے لہٰذا ان کو مزیدرقم دی جائے حکومت ان سے وجہ پوچھے کہ انہوں نے وقت پر اسکیم پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا اس کا کیسکو کے اعلیٰ ترین افسران کے پاس کوئی جواب نہیں ہے ڈیرہ غازی خان، لورالائی اور دادو اور خضدار ٹرانسمیشن لائن کی تعمیر سے قبل دعویٰ کیا گیا تھا کہ ان علاقوں میں بجلی کی ترسیل میں بہتری آئے گی اس کے بعد بھی بجلی کا بحران اسی طرح ہے اس کے باوجود بھی بجلی کی ترسیل میں اضافہ نہیں ہوا نہ ہی لوڈ شیڈنگ کے اوقات میں کمی آئی ہے حکومت بلوچستان کے پاس 54ارب روپے کے ترقیاتی فنڈ موجودہیں اور اگر وفاق بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے پر بضد ہے کہ وہ بجلی کی ترسیل میں بہتری پر رقوم خرچ نہیں کرے گا صوبائی ایم پی اے حضرات کے فنڈ کاٹ کر بجلی کے شعبہ کو بہتر بنائے صوبائی اسمبلی کے اراکین سے کہیں کہ وہ صرف قانون سازی کریں ترقیاتی عمل دوسروں کیلئے چھوڑ دیں یہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ ایران سے عنقریب معاہدہ ہوجائیگا اور ایران سے 3000میگاواٹ بجلی خریدی جائے گی اس کیلئے وفاقی حکومت پر فرض ہے کہ وہ پاور ٹرانسمیشن لائن تعمیر کرے سندھ سے کراچی براہ راست تربت ، آواران اور لسبیلہ، دوسری ٹرانسمیشن لائن چاہ بہار گوادر پسنی اورماڑہ، تمام ساحلی علاقے کراچی تک اور تیسری پاور ٹرانسمیشن لائن زاہدان کوئٹہ جو پورے چاغی اور خاران اضلاع کو بجلی فراہم کرے بجلی کی خریداری سے قبل وفاقی حکومت اس پر سرمایہ کاری کرے حالیہ دنوں میں سینٹ کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں بہت سے سینیٹرز کوئٹہ آئے ہوئے ہیں تقریباً ہر ایک سینیٹر نے کیسکو اور اس کے افسران کی کارکردگی پر اپنی برہمی کا اظہار کیا اور الزام لگایا ہے کہ اس کے افسران کرپشن میں ملوث ہیں اور انہوں نے بلوچستان کی زراعت کو تباہی کے دہانے پر کھڑا کردیا ہے۔