|

وقتِ اشاعت :   December 21 – 2015

کوئٹہ: شہ سرخی کے لفظ ڈھائی سالہ گزارنے والے وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے ہیں‘ جنہوں نے مری معاہدے پر دستخط کے فوراََ بعد ’’روزنامہ آزادی‘‘ کیلئے ٹیلیفونک انٹرویو کے دوران میرے سوال کے جواب میں دیا‘ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے میرے سوال پر جواب دیا کہ میگا منصوبے کی تکمیل تو دور کی بات اگر گوادر کے عوام کو صاف پانی مہیا کروں تو یہ میرے لیے بہت بڑے اعزاز کی بات ہوگی‘ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے ڈھائی سالہ دور حکومت کے دوران اپنے بات کی مکمل نفی کی‘ گوادر میں میگامنصوبوں کا آغاز تو کیا گیا مگر وہاں کے باشندوں کو پانی کی فراہمی کے حوالے سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے‘ جس کی حقیقت یہ تصویر خود بول رہی ہے‘ جس میں گوادر کے باشندے قطارلگائے پانی کے انتظارمیں کھڑے ہیں‘ گوادر کو پانی کی سپلائی آنکاڑہ ڈیم سے ہوتی رہی ہے جو خشک ہوکر رہ گئی ہے‘ جس پر محکمہ آب نے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں اٹھائے‘قوم پرست اور وسائل کے دعویداروں نے تو اس پر کوئی لب کشائی تک نہیں کی‘ حالت یہ ہے کہ روزانہ گوادر میں سیاسی ،سماجی حلقے سراپا احتجاج ہیں مگر صوبائی اور وفاقی حکومت پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبے کی تشہیر ہی میں مصروف عمل دکھائی دیتے ہیں‘ جس کا برائے راست تعلق ’’گوادر‘‘ سے ہے۔ایک بات تو واضح ہوچکی ہے کہ پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبہ گوادر کے عوام کے مفادات کیلئے نہیں ہے‘اگر گوادر کے عوام کی اہمیت ہوتی تو آج گوادر میں کم ازکم پانی کا بحران سامنے نہیں آتا‘ اہمیت صرف گوادر کی ہے‘گوادر کی آبادی لگ بھگ ڈیڑھ لاکھ کے قریب ہے ‘ گوادر میں پانی کا مسئلہ اس قدر سنگین ہوتاجارہا ہے کہ وہاں کے مکین کھارا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں‘ حکومت کی جانب سے یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ گوادر کے عوام کو پانی کی سپلائی کیلئے اقدامات اٹھائے جائینگے مگر ایک ماہ گزرنے کے باوجود بھی عوام پانی کیلئے ترس رہے ہیں‘ آج اگر سب سے بڑا موضوع زیر بحث میڈیا پر بلوچستان کے متعلق آتا ہے تو وہ پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبہ ہے ‘ وفاقی حکومت کے نمائندے اسے گیم چینجر کانام دیتے ہیں‘ جس پر ہنسی آتی ہے کہ گوادر کے عوام کے ساتھ ایسا مذاق کیوں کیاجارہا ہے‘ بلوچستان میں خوشحالی تو دور کی بات گوادر کی صورتحال ہمارے سامنے واضح مثال ہے جسے کسی صورت نظرانداز نہیں جاسکتا‘ گیم چینجر اور خطے کی تبدیلی کے دعویداروں نے ماضی کی یادیں تازہ کردیں‘ بلوچستان میں کوئی ایسی معاشی تبدیلی نہیں آئے گی جس کا خواب انہیں دکھایاجارہا ہے‘ آج بھی ساحل کے کنارے آباد سیاہ فام ماہی گیر ایک چھوٹی سی جھونپڑی میں زندگی کررہے ہیں جو زندگی کی تمام بنیادی سہولیات سے محروم ہیں‘ ان کی حالت زار میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھی ہے‘ مگر حکمرانوں کے پاس نہ کان ہیں اور نہ ہی وہ آنکھیں جو بلوچستان کے زمینی حقائق دیکھ سکیں‘ افسوس کے ساتھ یہ بھی کہناپڑتا ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے تو اس معاملے پر اپنی آنکھیں بند کرکے رکھ دی ہیں‘ اگر گوادر پر کوئی رپورٹ یا پروگرام کرنا ہے تو پاک چین اکنامک کوریڈور کی تعریف و توصیف سے منسوب ہووگرنہ وہ ناقابل قبول تصور کیا جائے گا‘ پاک چین اکنامک کوریڈور منصوبہ 46 بلین ڈالر پر محیط ہے‘ کیا گوادر کے مکین پانی کے مستحق بھی نہیں‘اب تو بقول آپ کے ’’جمہور‘‘کا دور ہے‘ مگر مائنڈ سیٹ وہی ہے جو عوام کے منافی ہو‘ شاید یہ کڑوی باتیں ایوان میں بیٹھیں لوگوں سمیت کچھ ہمارے دوستوں کو بھی ناگوار گزرے مگر حقیقت یہی ہے کہ آج بلوچستان میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اس کے بنیادی اسباب یہی ہیں‘ اس حقیقت سے انکارکرنا مشکل ہے‘ مستقبل میں بھی یہی امید لگائی جاسکتی ہے کہ یہ معاملہ گیم چینجر اور خطے کی صورتحال بدلنے کیلئے نہیں بلکہ ایک صوبے کو نوازنے اور اس کی قسمت بدلنے کیلئے ہے‘ بلوچستان اور بلوچ قوم کو پسماندہ رکھنے میں کسی سردار یا نواب کا اس بار کوئی ہاتھ نہیں ہوگا‘ مڈل کلاس بلوچ اور پشتون قوم پرستوں نے جو گُل اس ڈھائی سالہ دور حکومت میں کھلائے اسے بلوچ قوم تاریخ میں یاد رکھے گی‘ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے میگا منصوبے تو شروع کیے مگر افسوس انہوں نے گوادر میں پانی کی فراہمی کیلئے کچھ نہیں کیاجو کہ سیاسی بیان پر مشتمل تھا‘آخر میں شاید میرے لفظ یہی ہونگے کہ جہاں ناانصافی ہوگی وہ معاشرہ انتشار کی طرف بڑھے گا۔