|

وقتِ اشاعت :   May 29 – 2015

یہ ایک اچھی خبر ہے کہ ملک کے بڑے بڑے رہنماؤں نے اس بات پر اتفاق کر لیا ہے کہ گوادر بندر گاہ تک پہنچنے والی گزر گاہ کہاں کہاں سے گزرے گی۔ جیسا کہ پہلے خیال تھا کہ یہ ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب ‘ کوئٹہ اور پھر گوادر کی بندر گاہ تک پہنچے گی۔ اس سے قبل پختون رہنماؤں نے دھمکی دی تھی کہ اگر اس کو ڈیرہ اسماعیل خان، ژوب شاہراہ سے نہیں گزارا گیا تووہ اس روٹ کو بننے نہیں دیں گے جیسا کہ انہوں نے کالا باغ ڈیم کے ساتھ کیا۔ اس دھمکی کے بعد پنجابی لیڈر شپ نے ان کا یہ مطالبہ مان لیا۔ پوری دنیا میں مکران ساحل جو آبنائے ہرمز سے شروع ہوتا ہے اور کراچی پر ختم ہوتا ہے اس کی اہمیت ہے اس میں ایک بندر گاہ گوادر بھی ہے جس پر اتنا شور اور واویلا ہورہا ہے۔ ایران نے مکران کے ساحل پر کئی ایک پورٹ یا بندر گاہیں تعمیر کی ہیں ان میں بندر عباس ‘ بندر لنگا ‘ بندر جاسک ‘ بندر کنارک ‘ بندر چاہ بہار جو سب کے سب ایران کی ترقی میں زبردست سرگرمی دکھا رہے ہیں ۔ ان میں سے بندر کنارک میں نیوی ‘ زمینی افواج اور ہوائی فوج کے اڈے بھی ہیں اس کو 1960ء کی دہائی میں امریکا نے تعمیر کیا تھا اور اس کے اخراجات حکومت ایران نے برداشت کیے تھے ۔باقی تمام بندر گاہیں تجارتی ہیں اور انکے قرب و جوار میں بڑے بڑے تجارتی اور صنعتی مراکز قائم ہیں آج کل ایران کی حکومت پاکستان کے سرحد کے قریب پسا بندر کی تعمیر کے لئے کوشاں ہے ۔ ساحل مکران کے دو حصوں میں سے ایک حصہ ایران کے پاس یا ایرانی بلوچستان میں ہے ۔ دوسرا حصہ پاکستان یا پاکستنانی بلوچستان میں ہے ۔ ہم نے پسنی ‘ گوادر پر گزشتہ ستر سالوں میں صرف ماہی بندر تعمیر کیے تھے گوادر کے ماہی بندر کو جنرل پرویزمشرف نے گوادر بندر گاہ میں تبدیل کیا۔ چین سے قرضہ لے کر اس پر تین برتھیں تعمیر ہوگئیں مگر اس بندر گاہ پر بنیادی ڈھانچہ ہی نہیں ہے یعنی گوادر میں نہ پینے کو پانی ہے،اور نہ ہی بجلی سڑک اور دوسری ضروریات زندگی ۔ بہر حال ہم نے اورماڑہ میں نیول کو سہولیات ضرور فراہم کیں ’ پسنی کا ماہی گیری کا بندر بنیادی ڈھانچے کی غلط منصوبہ بندی کی وجہ سے ریت سے بھر گیا اب بندر گاہ اور اس کی سحری گزر گاہ پر صرف ریت ہے ۔ ضلع لسبیلہ میں دو ماہی بندروں کی تعمیر میں ریکارڈ غبن کی وجہ سے بندر میں پتھر موجود ہیں ماہی بندر غائب ہے ۔ عرض صرف اتنی ہے کہ اہمیت 3000کلو میٹر طویل مکران کے ساحل کی ہے ۔ دنیا اور بین الاقوامی معاشی قوتیں اس طویل ترین ساحل پر نظر رکھے ہوئے ہیں ۔ پوری دنیا سرمایہ کاری کے مواقع کی تلاش میں ہے ۔ایران نے یہ بھانپ لیا کہ بین الاقوامی معاشی قوتوں کو ساحل مکران کی ضرورت ہے تاکہ وہ مکران کے ذریعے وسط ایشیائی ریاستوں سے تجارت کریں اور ان کی تنہاہیوں کو ختم کریں اور ان کو بین الاقوامی معیشت کا حصہ بننے میں مدد کریں۔ چنانچہ پہلے تو ایران نے بندر عباس سے دوسرے ممالک کو افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے تجارت کے لئے راہداری دی ۔ ایران صرف راہداری کی فیس سے دس ارب ڈالر سالانہ کما رہا ہے ۔ بندر عباس اور وسط ایشیائی ممالک کے درمیان فاصلہ 2800کلو میٹر ہے جہاں سب سے نزدیک ترین ملک ترکمانستان ہے ۔ اب ایران چاہ بہار کے راستے دنیا کے ممالک کو راہداری دینے کو تیار ہے ۔ غالباً اگلے سال سے افغانستان اس راہداری کو استعمال کرنا شروع کر دے گا ۔ یہ فاصل کم ہو کر صرف 1400کول میٹر رہ جائے گا دوسرے الفاظ کم وقت اور کم لاگت پر جاہ بہار سے مال افغانستان ار ترکمانستان پہنچ جائے گا اور اس کے ساتھ ہی ایران کی راہداری کے ذریعے آمدنی 20ارب ڈالر سالانہ ہو سکتی ہے ۔ دوسری جانب ایران نے بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو زیادہ پر کشش سہولیات فراہم کیں جس کی وجہ سے تقریباً ہر بندر گاہ کے قریب وسیع و عریض آزاد تجارتی اور صنعتی زون قائم کیے صرف چاہ بہار کے قریب جاپان تیس لاکھ ٹن اسٹیل پیدا کرنے والا پلانٹ لگا رہا ہے ۔ آٹو موبائل کی وسیع صنعت قائم ہورہی ہے ۔ جو سالانہ ایک لاکھ گاڑیاں بنائے گا اس کے علاوہ چاہ بہار کے قریب تین پٹرو کیمیکل کے کار خانے لگائے جارہے ہیں جن کی مجموعی مالیت کا اندازہ پچاس ارب ڈالر لگایا جارہا ہے بھارت نے چاہ بہار کی تعمیر میں حصہ لیا تھا اور اب 35ملین ڈالر کے خرچ پر ایک بڑا کنٹینر ٹرمینل بنادیا ہے اور عنقریب وہ چاہ بہار کے ذریعے افغانستان اور وسط ایشیائی ممالک سے تجارت بڑے پیمانے پر شروع کررہا ہے معاشی سرگرمیوں کا رخ افغانستان اور وسط ایشئای ممالک میں ‘ ژوب ‘ ڈیرہ اسماعیل خان یا کوئٹہ نہیں ہیں ۔ حکومت پاکستان اور قومی سیاسی قیادت کے تمام ترجیحات غلط اور گمراہ کن ہیں گوادر کا مستقبل بھی افغانستان اور وسط ایشائی ممالک کے معاشی رابطوں پر ہے نہ کہ ژوب ‘ ڈیرہ اسماعیل خان ‘ چین کے 34ارب ڈالر گوادر یا ساحل مکران کی ترقی کے لئے نہیں ’ پاکستان میں بجلی کے بحران بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے ہیں بلوچستان کے لئے اس میں کوئی رقم نہیں اگر وفاق کو دل چسپی ہوتی تو گوادر ‘ رتو ڈیرو ‘ روڈ مکمل ہوچکا ہوتا گوادر کو پانی اور بجلی مل چکی ہوتی ۔ پہلے تو تجارتی اور صنعتی ضروریات کی پورا کرنے کے لئے پانی کہاں سے گوادر آئے گا۔ گزشتہ پندرہ سالوں سے ہم ایران سے سستی بجلی اور اپنے سرحد پر خریدنے سے رہے ۔ موجودہ حکومت کی ترجیہات کو دیکھ کر یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ حکومت وسیع ساحل مکران کی ترقی میں کوئی دلچسپی نہیں ۔ صرف پاک چین دوستی کے نعرہ بازی لگانے میں خوش ہیں ۔