|

وقتِ اشاعت :   May 18 – 2015

پورے ملک میں یہ غلط تاثر دیا جارہا ہے کہ گوادر کی بندر گا ہ کو راہداری یا گزر گاہ کی ضرورت ہے اکثر سیاسی رہنماؤں اور دانشوروں نے اس خیال کو نہ صرف اپنا لیا ہے بلکہ خرید لیا ہے اور وہ اس خیال کو آگے فروخت کرنا چاہتے ہیں گوادر کی بند ر گاہ یا ساحلی مکران کی درجنوں بندر گاہیں کھلے اور گہرے سمندر میں واقع ہیں جہاں پر بڑے جہاز بغیر کسی مشکل کے لنگر انداز ہوسکتے ہیں اگر ان کو وہ تمام سہولیات فراہم کردی جائیں البتہ سنکیانگ چینی کے ماتحتی علاقے کو راہداری کی ضرورت ہے سنکیانگ کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ موجودہ ایران کے رقبے کے برابر ہے اور یہ وسط ایشیاء میں واقع ہے جس کو ہم عام زبان میں چینی ترکستان بھی کہتے ہیں سنکیانگ کو راہداری یا گزر گاہ کی ضرورت میں قراقرم کے پہاڑی علاقے سے شروع ہوتا ہے اور روالپنڈی میں ختم ہوجاتا ہے چین کی صرف اتنی سی سڑک کی ضرورت ہے گوادر صرورت نہیں گوادر مغربی ایشیاء میں واقع ہے جہاں سے گلف کا سفر سمندری راستوں سے گھنٹوں کا ہے او ر ہوائی راستوں سے منٹوں کا ہے گوادر قراقرم یا روالپنڈی میں واقع نہیں ہے البتہ یہ اور بات ہے کہ حکومت پاکستان کو پنجاب میں چین کی زبردست سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جس کیلئے گوادر بندر گاہ اور اس کی نام نہاد گزر گاہ کا نام لیا جارہا اور اس بات کو زیادہ تشہیر نہیں کی جارہی ہے کہ 34ارب ڈالر صرف اور صرف پنجاب کی ترقی پر خرچ ہوں گے اور وہاں توانائی اور بنیادی ڈھانچہ تعمیر کیا جائے اس ساری اسکیم کا بلوچستان اس کے عوام اوراس کی ترقی کا سرے سے کوئی تعلق نہیں ہے ہماری شکایت یہ ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب یا پاکستانی ریاست کے کراؤن پرنس کو جو اختیارات دیئے گئے ہیں وہی اختیارات تین دوسرے صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کو بھی دیئے جائیں جو سفارت کاری کرکے اپنے صوبوں کی ترقی کیلئے نہ صرف وسائل اکھٹے کریں بلکہ دوسرے ممالک سے براہ راست تجارتی رابطے بنائیں یہ اختیار صرف پنجاب کو نہیں ملنا چاہئے ہمیں پنجاب کی ترقی میں اتنی ہی دل چسپی ہے جتنی کہ دوسرے صوبوں کیلئے مگر اس کیلئے گوادر کا شغر شاہراہ کا غلط نام استعمال نہ کیاجائے چین کو وہ تمام سہولیات فراہم کہیں جائیں جس کی اس کو ضرورت ہے بلکہ کاشغر پنڈی شاہراہ کی کامیابی کے چین کو بھارت کی حمایت اور مدد کی ضرورت ہوگی چین کے رہنما بھارتی وزیر اعظم سے ہی مطالبہ کریں گے کہ ان کو یہ راہداری کی سہولت ہر حال میں برقرار رکھی جائے یہ چین کی ضرورت ہے پاکستان کے عوام کی نہیں سنکیانگ میں مسلم اکثریت کو چینوں نے پہلے ہی اقلیت میں تبدیل کردیا وسطحی چین سے بڑی تعداد میں لوگ لاکر مسلمان صوبہ میں آباد کئے گئے اب مسلمانوں کی آبادی 46فیصد رہ گئی ہے اور 54فیصد چینی ہیں ان پر معاشی اور دوسرے دباؤ بڑھانے کیلئے قراقرم شاہراہ کو پنڈی سے ملانا ضروری ہے گوادر نہیں گوادر کا شغر شاہراہ کے نام پر پنجاب کو ترقی دی جارہی ہے جبکہ گوادر بندر گاہ پر دوسرے مرحلے کی تعمیر کا کام گزشتہ 15سالوں سے بند ہے گوادر کو ملانے والی شاہراہوں پر کام بند ہے صرف لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کیلئے ژوب اور قلعہ سیف اللہ کی سڑک پر کام کی منظوری دی ہے جس کا گوادر پورٹ سے کوئی تعلق نہیں گوادر بند ر گاہ کی ضرورت وسط ایشیاء کے ممالک اور افغانستان کو ہے گوادر یا چار بہار سے یہ فاصلہ صرف 1400کلو میٹر پے ایران اور بھارت نے اس کا بنیادی ڈھانچہ تقریباً مکمل کرلیا ہے بھارت نے افغان بلوچستان سے لیکر قندھار تک 220کلو میٹر سڑک تعمیر کرلی ہے دوسری طرف ایران نے بھی چہاہ بہار سے سڑک کو افغانی بلوچستان تک ہونی چیا ہے بھارت کی وقت بھی اپنی تجارت اس سڑکوں کے جال سے شروع کرسکتا ہے چہاہ بہار سے قندھار تک سڑک تعمیر ہوچکی ہے چہاہ بہار کی بندر گاہ میں تجارت بڑے پیمانے پر نہ صرف شروع ہوئی ہے بلکہ اس کے گرد و نواح بہت بڑ ے بڑے صنعتی مراکز قائم ہوچکے ہیں اور ان سے پیداوار حاصل ہورہی ہے ادھر گوادر سے تربت تک سڑک نہ بن سکی پاکستان کے منصوبہ سازوں کو ابھی تک یہ معلوم نہیں کہ گوادر کو کس مقام سے پاکستانی ریلوے کے نظام سے منسلک کردیاجائے گا بر حال گوادر کی اصل گزر گاہ تربت پنجگور خاران چاغی اور سیندک کے قریب اس کو افغان سرحد سے ملا یا جائے گا نوشکی سے لیکر تفتان اور سندھک تک ریلوے لائن پہلے سے موجود ہے یہی نزدیکی ترین راستہ ہے ، روالپنڈی نہیں ہے ۔