|

وقتِ اشاعت :   December 12 – 2013

imagesاسلام آباد(آن لائن) سپریم کورٹ نے بلوچستان لاپتہ کیس میں آئی جی ایف سی کیخلاف توہین عدالت کا مقدمہ الگ سے چلانے اور لاپتہ افراد کی جبری گمشدگیوں میں مبینہ طور پر ملوث ایف سی افسران اور اہلکاروں کو سی آئی ڈی حکام کے روبرو پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے چیف سیکرٹری بلوچستان‘ آئی جی بلوچستان اور آئی جی ایف سی کو نوٹس جاری کردئیے ہیں جبکہ 19 دسمبر تک تمام لاپتہ افراد کو بازیاب کرانے کا حکم دیتے ہوئے وفاقی حکومت اور حکومت بلوچستان کو اپنا کردار ادا کرنے اور تین روز میں قائم مقام آئی جی ایف سی کا تقرر کرنے کی ہدایت کی ہے‘ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ریمارکس دئیے ہیں کہ افسوس کا مقام ہے کہ وفاقی اور بلوچستان کی منتخب عوامی حکومت بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کیلئے کوئی کردار ادا نہیں کررہی ہیں‘ آئین کی بالادستی کیلئے عدالت اپنا کردار ادا کرے گی‘ کوئٹہ سے کراچی جانے والے لاپتہ افراد کے بچے‘ بوڑھے اور عورتوں کے دکھوں پر مرہم رکھنے کو کوئی بھی تیار نہیں ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ اسلامی مملکت خداداد میں دریا کے کنارے مرنے والے کتے کی ذمہ داری بھی حاکم وقت پر عائد ہوتی ہے‘ ادارے آئین و قانون پر عمل نہ کرکے کیا پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے یہ ریمارکس بدھ کے روز دئیے جبکہ عدالت نے آئی جی ایف سی اعجاز شاہد کے وکیل عرفان قادر کو سخت ترین جھاڑ پلاتے ہوئے خبردار کیا کہ وہ خاموش ہوجائیں بصورت دیگر ان کا مستقل لائسنس منسوخ کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری‘ جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس امیر ہانی مسلم پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی۔ اس دوران عرفان قادر نے کہا کہ ان کا لائسنس معطل کریں میرے کلائنٹ کو اخبارات میں بدنام کیا جارہا ہے ان اخبارات کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ خاموش ہوجائیں۔ ہماری پروسیڈنگ میں مداخلت کرنے پر آپ کو نوٹس جاری کریں گے۔ عرفان قادر نے کہا کہ تین روز ہوگئے ہیں آپ کو خاموشی سے سنتے ہوئے اب خاموش نہیں رہ سکتا۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ یہ رویہ دیکھ لیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ ہمارا احترام نہ کریں، پریکٹس کرنے کی 25 شقوں کا مطالعہ کریں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے اپنے طریقے سے کام کرنا ہے ہم نے آئی جی ایف سی کو طلب کیا تھا آج وہ پھر حاضر نہیں ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ آپ تشریف رکھیں آپ کا ایک ایک لفظ ریکارڈ پر لائیں گے اور اس کے نتائج بھی دیں گے۔ عدالتیں اس طرح کی فریز سے بہت اوپر ہیں۔ آپ کی دانست میں اپنے موکل کے دفاع کا یہی طریقہ ہے تو ٹھیک ہے ہم اپنا طریقہ اختیار کریں گے۔ عرفان قادر نے کہا کہ میرے دلائل میں یہ بھی نوٹ کرلیں کہ آئی جی ایف سی کو سنے بغیر آپ فیصلہ دے رہے ہیں۔ چیف جسٹس نے عرفان قادر سے کہا کہ آپ رولز آف سپریم کورٹ دیکھ لیں۔ حقائق کو دہرانے کی بجائے عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ سیکرٹری داخلہ اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لیں اور متعلقہ حکام سے بات کرکے سیکشن 5 کے تحت آئی جی ایف سی کی تقرری کا معاملہ حل کریں اور عدالتی حکم پر عمل کرنے کا کہیں جو 29 نومبر 2013ء کو جاری کیا گیا۔ جہاں تک عدالتی حکم پر عمل نہ کرنے کا معاملہ ہے تو اسے الگ سے سنا جائے گا۔ چیف جسٹس نے اے جی سے کہا کہ آپ کے پاس کمانڈ نہیں ہے کیا ان لوگوں کو پیش کریں گے۔ کیس کی تاریخ دیکھ لیں ایف سی کیخلاف ناقابل تردید شواہد موجو دہیں کہ ان کیخلاف کارروائی کی جائے۔ بلوچستان حکومت کے وکیل سے جسٹس جواد نے کہا کہ کیا آپ کی حکومت نہیں ہے جو اس طرح کے حالات پیدا ہورہے ہیں۔ آئین یہ کہتا ہے کہ آرٹیکل 190 کے تحت اس ملک کا ہر ادارہ مستعد ہوگا اور سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل کرنے کا پابند ہوگا۔ تمام انتظامی اور آئینی ادارے سپریم کورٹ کے احکامات کی تعمیل میں مدد کرنے کے پابند ہیں۔ جو بھی آئی جی ہوگا اس کو عمل کرنا ہوگا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ تین روز میں نیا آئی جی ایف سی مقرر کریں اگلے ہفتے اس کی سماعت کریں گے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ کیا بلوچستان میں کوئی حکومت اور قانون نہیں ہے۔ ہادی شکیل سمیت تین سال سے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں۔ علی اصغر بنگلزئی کو گیارہ سال ہوگئے ہیں۔ اس ملک کو اسلامی مملکت پاکستان قرار دیا گیا ہے جس کے تحت دجلہ کے کنارے مرنے والے کتے کی ذمہ داری بھی حاکم وقت پر عائد ہوتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آئی جی ایف سی نہیں ہے۔ بلوچستان حکومت کہتی ہے کہ ہماری کوئی نہیں سنتا تو پھر کس کی بات سنی جائے گی۔ جسٹس جواد نے کہاکہ میں نے کل اے جی سی کہا تھا کہ ہمیں خود سے پتہ کرکے بنچ بتادیں کہ کیوں اس طرح کی چیزیں ہورہی ہیں اور لوگ ان کیخلاف مظاہرہ کررہے ہیں۔ قانون کی کتاب کیسے کسی کو دکھائیں گے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ایف سی اور فوج آپ کی کمانڈ میں ہے آپ منتخب حکومت ہیں تو بندے پیدا کریں۔ جب بلوچستان حکومت خود اپنے صوبے میں رٹ قائم نہیں کرسکتی تو وفاقی حکومت ان کی کیا مدد کرے گی۔ جسٹس جواد نے کہا کہ ڈی آئی جی عمر خطاب کی رپورٹ پڑھ لیں۔ اگر بنیادی انسانی حقوق سرکار‘ بلوچستان یا وفاقی حکومت نے محفوط نہیں کرنے تو پھر ہمارے یہاں بیٹھنے کی کیا وجہ باقی رہ جاتی ہے اس کے نتائج بھی بتائیں۔ مجھے تو ابھی تک سمجھ میں نہیں آیا کہ اس ملک میں کیا ہورہا ہے۔ اے جی نے کہا کہ وہ آئی جی ایف سی سے رابطہ نہیں کرسکتے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری داخلہ کو کہیں۔ دکھ اس بات کا ہے کہ منتخب عوامی حکومت ہے اور عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔ اے جی نے کہا کہ وہ شاہد عزیز سے ذاتی طور پر کہیں گے کہ وہ خود ذاتی طور پر پیش ہوں ہم تو عملدرآمد نہ کرنے کے نتائج کا سوچ کر ہلکان ہورہے ہیں۔ جسٹس جواد نے کہا کہ قانون پر عمل نہ کرکے کیا یہ سب ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنا چاہتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے یہ بھی نوٹ کیا ہے کہ تمام حکام آئین و قانون کے تحت کام کررہے ہیں اور صوبے میں عوامی حکومت ہے جس کا یہ فریضہ ہے کہ وہ بنیادی انسانی حقوق کا نفاذ کرے خاص طور پر اس مقدمے میں جو اس وقت ہمارے ہاتھوں میں ہے جس میں کئی سالوں سے ایک شور بپاء ہے اور ایل ای جیز ان معاملات میں ملوث ہیں اور احساس نہیں کررہے۔ یہ ذمہ داری وفاقی اور صوبائی دونوں حکومتوں کی ہے کیونکہ دونوں حکومتیں جمہوری ہیں۔ لاپتہ افراد کے رشتہ دار مسلسل کیمپس کوئٹہ میں قائم کرکے بیٹھے رہے پھر وہ پیدل کراچی گئے۔ ان کیساتھ چھوٹے چھوٹے بچے بوڑھے اور خواتین بھی تھیں۔ انہوں نے لاپتہ افراد کی تصاویر اٹھا رکھی تھیں جس کی ملک کیساتھ ساتھ دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہورہی ہے۔ اب وہ بیرونی دنیا سے اپنوں کی واپسی کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ان کے احتجاج کے باوجود کوئی بھی ان کے زخموں پر مرہم رکھنے کو تیار نہیں ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار بھی صحیح نہیں ہے۔ منتخب حکومت بھی اپنے وعدے پورے نہیں کررہی۔ اب تو بلدیاتی انتخابات بھی ہوچکے ہیں۔ اسی طرح سے وفاقی حکومت کا بھی حال ہے۔ جہاں چیف ایگزیکٹو اور کابینہ موجود ہے اور منتخب عوامی نمائندے ایم این ایز اور سینیٹرز جن کا تعلق بلوچستان سے ہے‘ اس معاملے سے پوری طرح سے آگاہ ہیں۔ اس طرح کے حالات میں ہم آئی جی ایف سی کو حکم دیتے ہیں کہ وہ لاپتہ افراد کے اٹھائے جانے میں ملوث ایف سی حکام کو سی آئی ڈی افسر کے سامنے پیش کریں اور دیگر ادارے بھی اس میں تعاون کریں خاص طور پر منیر احمد ایڈووکیٹ جسے خضدار کے علاقے سے اٹھایا گیا ہے‘ کو پیش کیا جائے۔ اسی طرح اور بھی کئی مقدمارت ہیں جن کی تفصیلات ہمارے مختلف احکامات میں موجود ہیں۔ اگلی تاریخ سماعت پر چیف سیکرٹری‘ آئی جی ایف سی اور سیکرٹری داخلہ پیشرفت کیساتھ عدالت میں پش ہوں۔ اگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہوئے اور اس طرح کے ادارے اگر ناکام ہوجاتے ہیں اور عدالتی احکامات پر عمل نہیں کرپاتے تو وہ ذمہ دار ہیں ان کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ وفاقی حکومت اور عبداللہ خٹک بیان حلفی جمع کروائیں کہ کارروائی کی جائے گی۔ ہم تمام افسران اور اداروں کو نوٹس جاری کرتے ہیں جنہوں نے عدالتی حکم پر عمل کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ آئیں اور عمل نہ کرنے کی وضاحت دیں‘ کیوں نہ ان کیخلاف لاپتہ افراد کی بازیابی نہ ہونے پر کارروائی کی جائے۔ عدالت نے مقدمے کی سماعت سات روز تک ملتوی کردی اور اب سماعت 19 دسمبر کو اسلام آباد میں ہی کی جائے گی۔