|

وقتِ اشاعت :   October 2 – 2013

quettaکوئٹہ(اسٹاف رپورٹر) بلوچستان اسمبلی اجلاس میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کے مابین تلخ کلامی کے بعد ایوان مچلی بازار بن گیا۔ ایوان میں چور مچائے شور کے نعرے لگائے گئے۔ اپوزیشن ارکان نے احتجاجا واک آؤٹ کردیا۔بلوچستان اسمبلی کا اجلاس چیئرمین آف پینل کے رکن سردار رضا محمد بڑیچ کی صدارت میں ایک گھنٹے کی تاخیر سے شروع ہوا تو پشاور کے قصہ خوانی بازارمیں ہونے والے دھماکے میں مرنے والوں کے لئے فاتحہ خوانی کی گئی۔ اجلاس میں رکن انجینئر زمرک خان اچکزئی نے اسپیکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آج کی کارروائی کیا کوئی مذاق ہے ، اجلاس کا کوئی ایجنڈا نہیں ، کیا ہمیں یہاں لطیفے سنانے اور پکوڑے کھانے کے لئے بلایا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بلوچستان میں کوئی مسئلہ ہی نہیں رہا جس پر ایوان میں کوئی بحث کی جائے۔ جمعیت علمائے اسلام ف کی خاتون رکن اسمبلی شاہدہ رؤف نے کہا کہ اجلاس پر حکومت کے بھاری اخراجات آتے ہیں کارروائی نہ ہونا افسوس ناک بات ہے ، عوام پر بجلی اور پیٹرول کو مہنگا کرنے کے حوالے سے بم گرایا گیا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ ہوگا ،دو سو یونٹ تک کے استعمال میں بجلی مہنگی نہ کرنے کی بات دراصل ہمارے اس قبائلی معاشرے میں مشترکہ خاندانی نظام کو تقسیم کرنے کی سازش ہے جس سے اس بات پر مجبور کیا جارہا ہے ، کہ ایک ہی گھر میں جو مشترکہ خاندان کے طور پر رہتے ہیں وہ علیحدہ ہوکر زندگی شروع کریں تا کہ ان کے علیحدہ رہنے سے بجلی کے دو سو یونٹ سے کم استعمال ہو ں۔ صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ بجلی تیل مہنگا کرنے کا مسئلہ وفاق سے تعلق رکھتا ہے البتہ ممبران کو اس حوالے سے تحریک التواء یا قرارداد لانی چاہیے ۔صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے انجینئر زمرک کے نقطہ اعتراض کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ حکومت سابقہ حکومت سے لاکھ درجے بہتر ہے ماضی میں پانچ منٹ سے زیادہ اسمبلی کی کارروائی نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہا کہ جہاں تک اسمبلی کی کارروائی کی بات ہے سوالات اپوزیشن کی طرف سے آتے ہیں مگر اپوزیشن کی جانب سے کسی قسم کے سوالات نہیں پوچھے گئے ہیں اس لئے وقفہ سوالات موخر کیا گیا انہوں نے کہا کہ زلزلے کے باعث وزیراعلیٰ اور دیگر لوگ متاثرہ علاقوں میں بیٹھے ہوئے ہیں ہمارے پاس بہت سی کارروائی موجود ہے لیکن انہیں قانونی طور پر پہلےء کابینہ میں پیش کیا جاتا ہے کابینہ کا اجلاس نہ ہونے کی وجہ سے ہم ایسا نہیں کرسکتے جب وزیراعلیٰ آئیں گے تو بل اور دیگر امور کابینہ میں پیش کرنے کے بعد اسمبلی میں لائیں گے ، انہوں نے کہا کہ ماضی کی حکومت میں اسمبلی کی کارروائی اکثر اوقات پانچ منٹ تک محدود رہتی تھی موجودہ اسمبلی میں ہر مسئلے پر گھنٹوں تک بحث ہوتی ہے ۔۔مسلم لیگ ق کے عبدالکریم نوشیروانی نے کہا کہ چھ ماہ سے کابینہ مکمل نہیں ہورہی جو عوام کے ساتھ مذاق ہے بجٹ پاس ہونے کے باوجود فنڈز ریلیز نہیں کئے جارہے جن کے لیپس ہونے کا خدشہ ہے یہ بلوچستان کے عوام کے ساتھ دھوکہ ہے ۔پشتونخوا میپ کے نصراللہ زیرے نے کہا کہ کریم نوشیروانی حکومت کا حصہ ہیں پہلے وہ اپوزیشن میں جا کر بیٹھیں پھر تنقید کریں ۔عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ کریم نوشیروانی کا یہ طریقہ درست نہیں وہ حکومت کا حصہ ہیں ۔پشتونخوا میپ کے لیاقت علی آغا نے کہا کہ ماضی میں بڑے پیمانے پر کرپشن کی گئی ہے ہر ایم پی اے نے ایک ارب پینتالیش کروڑروپے ہڑپ کئے اس کا حساب لیا جائے گا ۔ اس دوران ایوان میں اپوزیشن اور حکومتی ارکان کھڑے ہوگئے اور ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی ۔ ارکان نے ایک دوسرے کے خلاف غیر مہذب الفاظ کا استعمال کیا ۔ شور شرابہ کے ابعث جس سے ایوان مچھلی بازار بن گیا ۔ جس پر اپوزیشن ارکان نے واک آؤٹ کیا ۔ اپوزیشن ارکان پر حکومتی ارکان کے بنچوں نے چور مچائے شور کے نعرے کھسے ۔ اجلاس کی صدارت کرنے والے پینل آف چیئرمین کے رکن سردار رضا محمد بڑیچ بھی بے بس ہوگئے اور اجلاس پندرہ منٹ کے لئے ملتوی کردی گیا۔ وقفے کے بعد اجلاس شروع ہوا تو پشتونخوامیپ کے ڈاکٹر حامد اچکزئی نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ یہ اسمبلی خان عبدالصمد خان اچکزئی نواب یوسف عزیز مگسی ، اور دیگر شہداء و رہنماؤں کی قربانیوں کی بدولت ہمیں ملی ہے ہم یہاں ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے یا ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے نہیں آتے اجلاس کے دوران مائیک پر جس کسی نے کچھ کہا وہ اپنی جگہ لیکن اجلا س ملتوی ہونے کے بعد ایک معزز رکن نے جس طرح گالیاں دیں وہ ناقابل برداشت اور قابل مذمت عمل ہے کسی کو کسی کی ذات پر اس طرح حملہ کرنے کی اجازت نہیں اسپیکر کو اس مسئلے کا سنجیدہ نوٹس لینا چاہیے بدمعاشی کا یہ طریقہ نہیں چلے گا گزشتہ حکومت کے وزیروں نے جعفرخان مندوخیل کے ساتھ جو رویہ اپنایا تھا اگر اس کا سنجیدہ نوٹس لیا جاتا تو آج یہ نوبت نہ آتی۔ پارٹی کے رحمت بلوچ نے ناخوشگوار واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے ایوان کا تقدس پامال ہوا جن لوگوں سے حکومت چھین لی گئی ہے وہ اسمبلی کے اندر روایات کو پامال کرنے پر اتر آئے ہیں اپوزیشن کو اس طرح کا رویہ زیب نہیں دیتا افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ سیاسی ورکر ہونے کا دعویٰ کرنے والوں نے جو رویہ اختیار کیا وہ افسوناک ہے جو لوگ الزامات لگا رہے ہیں ان کے کرپشن کا ریکارڈ موجود ہے موجودہ حکومت ماضی کی غلط روایات کو ختم کرکے اس صوبے اور اداروں کو صحیح ٹریک پر ڈال رہی ہے ماضی میں قانون گو اور پٹواریوں کے تبادلوں کا سودا کرنے والوں کا ریکارڈ بھی موجود ہے یہ لوگ کرپشن چھپانے کی خاظر الزامات لگا رہے ہیں انہوں نے کہا کہ غیر مذہب رویہ رکھنے والوں کی رکنیت معطل کی جائے ۔ انجینئر زمرک اچکزئی نے کہا کہ ہم نے بھی پانچ سال تک حکومت کی روایات کو جانتے ہیں کبھی ایسی بات نہیں کریں گے جس سے کسی کی دل آزاری ہو ہم نے اسمبلی کارروائی کے حوالے بات کی ہے مگر ہمارے ساتھ جو ہوا وہ افسوس ناک ہے ہمیں اسمبلی میں احتجاج اور بات کرنے کا حق حاصل ہے ہم نے کسی کو گالی نہیں دی مگر جو لوگ لڑنے کے لئے بڑھے ۔ہیں ہمارے پیچھے آوازیں لگائی گئیں یہ طریقہ کار کسی طور پر درست نہیں اگر کسی کے پاس ہمارے خلاف ثبوت ہیں تو وہ ایوان میں پیش کریں اگر ہمیں بات کرنے کی اجازت نہیں تو ہم اسمبلی سے باہر بیٹھ جائیں گے۔ اس موقع پر اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آؤٹ کرگئے ۔بعد ازاں ارکان اسمبلی عاصم کردگیلو ، حاجی اسلام اور خالد لانگو اپوزیشن ارکان کو مناکر واپس لے آئیں۔انہوں نے کہاکہ ڈاکٹر مناف ترین کے اغواء کے خلاف 24 ستمبر اسمبلی اجلاس کے موقع پر ڈاکٹروں نے اسمبلی عمارت کے باہر احتجاج کیا حکومتی اور اپوزیشن ارکان نے نہ صرف ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا بلکہ اسپیکر کے چیمبر میں ڈاکٹروں سے بات چیت کرکے آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا گیا جس پر صوبائی حکومت عمل درآمد کررہی ہے ۔ لیکن ایک ہی دن بعد اپوزیشن نے اسی حوالے سے تحریک التواء جمع کرائی جو صرف سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے کیا گیا ۔پشنخوامیپ کے عبیداللہ بابت نے کہا کہ اسلام آباد میں بلوچستان کے کوٹے پر مختلف اداروں کے سربراہ بلوچستان کا جعلی ڈومیسائل رکھنے والے بن جاتے ہیں جس سے مقامی افسران کی حق تلفی ہونے کے ساتھ بلوچستان کے مسائل بھی اجاگر نہیں ہوتے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جائے اور آئندہ بلوچستان کے حقیقی مستقل باشندون کو اہم عہدون پر تعینات کیا جائے ۔مسلم لیگ ن کے میر غلام دستگیر بادینی نے کہا کہ 2005 ء میں عوام کے سہولت کے لئے صوبے کے مختلف علاقوں کی طرح چاغی، واشک ، نوشکی اور خاران پر ریجن بنا کر آر پی او تعینات کیا گیا تھا اب سننے میں آیا ہے کہ آر پی او جو ڈی آئی جی کے رینک آفیسر ہے اس کو ختم اور باقی سیٹ اپ کو وائنڈ آپ کیا جارہا ہے جس سے عوام کو اپنے مسائل کے حل میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا اور پانچ سو لوگ بے روزگار ہوجائیں گے اگر جلد صورتحال پر توجہ نہ دی گئی تو اسمبلی کے سامنے دھرنا دیں گے ۔ مسلم لیگ ن کے عاصم کرد گیلو نے کہا کہ گزشتہ سیشن کے دوران کیسکو حکام نے اسمبلی میں آکر بریفنگ دی تھی اور یقین دلایا تھا کہ زرعی مقاصد کے لئے 8گھنٹے بجلی فراہم کی جائے گی مگر بمشکل دو گھنٹے بجلی فراہم کی جارہی ہے کیسکو حکام کو دوبارہ بلایا جائے ۔عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ گڈانی پاور پارک کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوا بلکہ صرف ایم او یو پر دستخط ہوئے ہیں ۔مسلم لیگ ن کے ارکان اظہار حسین کھوسہ اور عبدالماجد ابڑو نے کہاکہ اوچ پاور پلانٹ میں پنجاب اور سندھ سے لوگوں کو بھرتی کیا گیا جس سے مقامی لوگوں کی حق تلفی ہوئی ہے جب اس کے خلاف مقامی یونین نے آواز اٹھائی تو انتظامیہ نے ان کے خلاف انتقامی کارروائی کے طور پر ایف آئی آر درج کرائی انہوں نے مطالبہ کیا کہ اوچ پاور پلانٹ میں مقامی لوگوں کو روزگار دیا جائے اور جن افراد کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہے وہ واپس لی جائے ۔جمعیت علماء اسلام کے رکن اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران نے پوائنٹ آف آرڈر پر کہا کہ سیکرٹری خزانہ بلوچستان نان ڈویلپمنٹ مد میں فٹ پاتھ پر پھرنے والوں او رپنے من پسند لوگوں کو فنڈز جاری کررہے ہیں جن کا شاہد حکومتی ارکان کو بھی پتہ نہیں یہ فنڈز عوام کی فلاح و بہبو د کی بجائے جیبوں کی نظر ہورہی ہے انہوں نے کہا کہ دو سے تین ملین روپے روڈوں کی مرمت اور بلڈنگوں پر رنگ وروغن کے نام سے جاری ہوتے ہیں اس وقت روڈوں او ربلڈنگوں پر سرخی پوڈر لگانے کے بجائے یہ پیسے زلزلہ زدگان کی بحالی پر خرچ کئے جائے تو بہتر ہے۔ بعد ازاں اسپیکر نے اجلاس چار اکتوبر ساڑھے چاربجے تک اجلاس ملتوی کردیا ۔