|

وقتِ اشاعت :   October 2 – 2013

imagesکوئٹہ(اسٹاف رپورٹر)بلوچستان کے زلزلہ متا ثرہ علاقوں میں امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث اب متاثرین کو ریلیف پہنچانے کے لئے حکمت عملی تبدیل کر لی گئی ہے اور علاقے میں اثر ورسوخ رکھنے والی مذہبی جماعتوں کی مدد سے متاثر ین تک خوراک اور دیگر اشیاء پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس بات کا انکشاف امریکی ریڈیو کی رپورٹ میں کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق بلوچستان رقبہ کے لحاظ سے ملک کا چو الیس فیصد رقبہ رکھنے والا ایک وسیع وعر یض مگر پسماندہ صوبہ ہے زلزلے سے پہلے شاید ہی کسی نے آواران کا نام سُنا ہوگا، مگر زلزلے کے بعد یہاں ہونے والی تباہی سے یہ ضلع پوری دنیا میں متعارف ہوا ہے ، صوبائی دارلحکومت کو ئٹہ سے بیلہ کے راستے سے آواران کا فاصلہ تقر یباً نو سو جبکہ خضدار سے نال اور مشکے کے دشوارگزار کچا راستہ پانچ سو کلو میٹر بنتا ہے اس ضلع کی آابادی مقامی انتظامیہ کے مطابق 215000 ہے ۔بلوچستان کے جنوب مغر بی اضلاع آواران اور تربت میں گزشتہ بُدھ کو آنے والے زلزلے کی تباہ کاریو ں کے آثار علاقے کے ہر دیہات میں کافی واضح نظر آتے ہیں زلزے سے اب تک ہلاکتوں کی تعداد چارسو سے تجاوز کر گئی ہے ضلع آواران بلند پہاڑوں ، سنگلاخ چھٹانوں اور مختلف حسین وادیوں کا گھر ہے ضلع کے تمام علاقوں کے راستے کافی دشوار اور سڑکیں نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ وائس آف امر یکہ کے نمائندے کے مطابق بعض علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد ایسا لگا کہ اس علاقے میں تقر یباً 20 سال سے شاید کو ئی کام نہیں ہوا۔ اوراس کی پسماندگی ملک بھر میں شاید اپنی مثال آپ ہے۔ مشکے اور آواران کا فضائی جائزہ لینے اور لباچ کا فوج اور ایف سی کے جوانوں کی سیکورٹی میں دورہ کرنے سے اس بات کا اندازہ ہوا کہ کہیں تو پوری بستی متاثر اور کہیں آدھی تباہ ہو گئی ہے اس علاقے میں جس طر ف بھی نظر ڈالی جائے وہاں پر تباہی ہی تباہی نظر اتی ہے ، متاثرین زلزلہ نے اب بھی بعض علاقوں میں اپنے پرانے کپڑوں کو جو ڑ کر رہنے کے لئے سائبان بنادیاہے۔یہ امر قابل ذکر ہے کہ جو علاقے زلزلے سے متاثرہوئے ہیں وہ عسکر ی تنظیموں کے زیراثر ہیں مقامی انتظامیہ کے مطابق عسکر یت پسند اس ضلع کے چپے ، چپے سے واقف ہیں اور انہوں نے ان علاقوں میں اب بھی عسکر یت پسندوں نے اپنی پر تشدد کاروائیاں جاری رکھی ہیں۔علاقے میں عسکری تنظیموں کے خوف کا یہ عالم تھاکہ وہ اپنی مشکلات کا کھل کر اظہار بھی نہیں کر سکتے تھے ۔امر یکی ریڈیو کے نمائندے کے مطابق دوسری طر ف امدادی کاروائیوں میں مصروف فوج اور فر نٹئیر کور کے جوان بھی صورتحال پر مضطرب دکھائی دیئے۔سیکورٹی فورسز کے لئے امن وامان ایک مسئلہ بنا ہوا ہے ان اداروں کے جوان انتہائی محتاط طور پر نقل و حر کت کررہے ہیں جس کی وجہ زلزلے کے بعد یکے بعد دیگر ے حملے ہیں ۔امن وامان کی خراب صورتحال کے باعث اب متاثرین کو ریلیف پہنچانے کے لئے حکمت عملی تبدیل کر لی گئی ہے اور علاقے میں اثر ورسوخ رکھنے والی مذہبی جماعتوں کی مدد سے متاثر ین تک خوراک اور دیگر اشیاء پہنچانے کا فیصلہ کیا گیا ہے، مقامی انتظامیہ کے مطابق اس مقصدکے لئے جمعیت علما اسلام فضل الرحمان گروپ کے ضلع قلات ، خضدار اور سوراب کے منتخب نمائندوں اور اُن کی پارٹی کے زیرانتظام چلنے والے مدارس کے نیٹ ورک کو استعمال کیا جارہا ہے اس سلسلے کو آگے بڑھانے کے لئے جے یوآئی کے دونوں اضلاع کے ارکان قومی اسمبلی مو لانا عبدالغفور حیدری اور مو لانا قمر الدین امدادی سامان کو لے کر مشکے اور دیگر قریبی دیہات میں پہنچ چکے ہیں ۔زلزلے سے متاثرہ علاقوں کے لوگوں کو توقع ہے کہ جب اس ضلع کی تعمیر نو ہو گی ، تو انھیں بھی دیگر علاقوں کی جدید سہولتیں میسر ہو ں گی مگر بدامنی کے باعث وہ پر یشان ہیں کہ شاید ہی کو ئی اس ضلع کا رُخ کر ے گا۔