|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2013

leadکوئٹہ (آئی این پی) وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے واسا میں بڑے پیمانے پر خوردبرد اور بلوچستان ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں غیر قانونی بھرتیوں کے خلاف تحقیقات کا حکم دیدیا ، صوبے اور عوام کے پیسوں کو کسی کے جیبوں میں آسانی سے جانے نہیں دیں گے تحقیقات کے نتیجے میں جو کچھ سامنے آیا وہ اسمبلی میں پیش کریں گے ، بی ڈی اے کے احتجاج کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کے لئے صوبائی حکومت فوری طور پر 10 کروڑ روپے ریلیز کررہی ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے مسلم لیگ (ق) کے رکن اسمبلی شیخ جعفر خان مندوخیل کی جانب سے کوئٹہ شہر کے لئے آب نوشی کی ضرورت کو پوری کرنے کی خاطر مانگی اور ھیلک ڈیمز پر جلد از جلد کام شروع کرنے سے متعلق پیش کی گئی قرارداد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کیا ۔ بلوچستان اسمبلی نے یہ قراد داد اتفاق رائے سے منظور کرلی ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ کوئٹہ کے لئے پانی کی فراہمی کی گریٹ واٹر منصوبے پر 7 ارب روپے خرچ ہونے تھے جو اب 24 ارب تک پہنچ گئے ہیں جن میں 7 ارب سیورج اور پائپ لائن جبکہ 9 ارب ڈیموں کی تعمیر کے لئے مختص کئے گئے تھے جبکہ باقی رقم سے شہر کے اندر پائپ بچھانا تھا صوبے کے ساتھ زیادتی یہ کی گئی کہ پانی کی ریسورس کا کوئی پتہ نہیں جبکہ پائپ لائن کو بچھادیا گیا ہے چونکہ پائپ بچھانے میں کمیشن سب سے زیادہ تھا اس کے لئے کام پہلے کیا گیا ۔ انہوں نے کہاکہ جن لوگوں نے یہ زیادتی کی ہے چاہے وہ کتنا ہی بڑا اور بااثر نہ ہوں ان کے خلاف انٹی کرپشن کے ذریعے غیر جانبدارانہ تحقیقات کرائیں گے اور جو بھی سزاوار ہوگا اسے ایوان کے سامنے لایا جائے گا ۔ بی ڈی اے میں 14 سو ملازمین کی عارضی بھرتیوں کے متعلق انہوں نے کہاکہ پچھلی حکومتوں نے ہمیں اس عذاب میں ڈالا ہے 14 سو ملازمین کو بغیر میرٹ کے بھرتی کئے گئے ہیں بی ڈی اے چونکہ خودمختار ادارہ ہے صوبائی حکومت انہیں فنڈز فراہم نہیں کرتی ہے انہیں اپنا فنڈ خود پیدا کرنا چاہیے لیکن اس وقت بی ڈی اے ہماری گلے پڑا ہوا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ ان ملازمین کو ریلیف پیکج کے طور پر دس کروڑ روپے جاری کررہے ہیں تاہم یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ جس انداز میں یہ بھرتیاں ہوئی ہیں ان کا بھی تحقیقات کراؤں گا ۔ حبیب اللہ کوسٹل کی بندش سے متعلق انہوں نے کہا کہ کیسکو حکام سے اس سلسلے میں بات ہوئی ہے حبیب اللہ کوسٹل نے وفاق سے اجازت لے کر مرمت کی خاطر کام بند کردیا ہے آئندہ ایک دو روز میں وہ اپنا کام دوبارہ شروع کرے گی ۔ اس سے پہلے جعفر خان مندوخیل نے قرار داد پیش کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ کی آب نوشی کی ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے ایک گریٹ واٹر سپلائی اسکیم کی منظوری دیتے وقت مانگی اور ھیلک ڈیمز تعمیر کرنے کی بھی منظوری دی گئی تھی لیکن شہر میں صرف 15 سو کلو میٹر سے زائد پائپ لائن بچھائی گئی مذکورہ اسکیم سے کوئٹہ شہر کی آبنوشی کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جاسکتا ہے لہذا شہر کی آبنوشی کی ضروریات کو پوری کرنے کے لئے مانگی اور ھیلک ڈیمز کی جلد از جلد تعمیر شروع کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ میں اس وقت پانی مسئلہ خطرناک صورت اختیار کرتا چلا جارہا ہے ہم اپنے آنے والے نسلوں کا پانی پی رہے ہیں زمین کے اندر پانی ختم ہوگئی اور دراڑیں پڑ چکی ہیں ایوب خان کے دور میں 6 کروڑ 1998 میں 35 کروڑ روپے جبکہ مشرف کی دور میں 7 ارب 90 کروڑ کا تخمینہ لگایا گیا تھا جن میں 2 ارب ھیلک جبکہ 4 ارب مانگی ڈیم کی تعمیر پر خرچ ہونا تھا اور ایک ارب 70 کروڑ روپے پائپ لائن کی بچھائی اور ٹیوب ویلوں کی مرمت کے لئے شامل تھی ۔ انہوں نے کہا کہ اب وفاق بھی ہمیں اس مد میں فنڈز دینے سے تنگ آچکی ہے ایک ارب 70 کروڑ کی پائپ لائن بچھانے پر 7 ارب کس طرح خرچ ہوئے ہیں ان کی انکوائری کرائی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ کوئٹہ شہر کو بچانے کے لئے دونوں ڈیموں کا بننا نہایت ضروری ہے ۔ صوبائی وزیر عبدالرحیم زیارتوال نے قرار داد پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ شہر کے لئے پانی کی فراہمی پر ہم نے 2002 کے اسمبلی میں بھی آواز اٹھائی تھی اس وقت ایک کمیٹی بھی بنی تھی میں اس کمیٹی کا ممبر تھا اور ہم نے ایک مکمل رپورٹ اس وقت کے وزیراعلیٰ واسا اور دیگر محکموں کو بھی دی تھی تاہم اس پر کوئی عمل درآمد نہیں ہوا ۔ انہوں نے کہا کہ مانگی ڈیم زیارت جبکہ ھیلک ڈیم ہرنائی میں بن رہے ہیں اب تک 9 ارب روپے خرچ کئے جاچکے ہیں گزشتہ حکومتوں کے دوران ان منصوبوں پر کوئی کام نہیں ہوا ایکنک کے اجلاس میں اس مسئلے کو ہم نے اٹھایا ہے فیڈرل پی ایس ڈی پی میں اس منصوبے کے لئے 17 ہزار ملین روپے مختص کئے گئے اس سال کی پی ایس ڈی پی میں 15 سو ملین روپے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 1973 کے اسمبلی میں خان عبدالصمد خان اچکزئی نے کوئٹہ سمیت صوبہ بھر میں پانی اور جنگلات سے متعلق جو نقشہ پیش کیا تھا آج من وعن وہی سامنے آرہا ہے شاید ہم میں سے کوئی بھی اس طرح کا وژن پیش نہ کرسکے بعد میں حمید خان اچکزئی مرحوم نے واٹر ٹیبل کے مسئلے کو سنجیدہ انداز میں لے کر کوششیں کی تھیں اور انہوں نے واضح کیا تھا کہ اگر ہم نے اقدامات نہ اٹھائے تو یہ صوبہ پانی کے حوالے سے مشکلات سے دوچار ہوگا ۔ عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ اس وقت بلوچستان میں 14ملین ایکڑ فٹ پانی سیلاب کی شکل میں ضائع ہوتا ہے جس کو روکنے کے لئے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کئے گئے ہیں دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ہم نے تمام جنگلات کاٹ دیئے جس کی وجہ سے زمین پر نیچرل اسپنج ختم ہو کر رہ گیا ہے جس کی وجہ سے سیلابی پانی زیر زمین جانے کی بجائے زمین کی سطح پر بہہ کر سیلاب کی شکل میں ضائع ہوجاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ نیچرل اسپنج کو بنانے کے لئے اب ہم نے منصوعی طریقے اختیار کرنے ہوں گے ۔ انہوں نے وزیراعلیٰ بلوچستان پر زور دیا کہ وہ کوئٹہ کے آس پاس واقع پہاڑوں کے درمیان موجود زمینوں پر چیک ڈیم بنائے ورنہ بعد میں ان زمینوں پر لوگ قبضہ کرلیں گے ۔ انہوں نے کہا کہ ھیلک ڈیم سے 8 قدرتی چشمے بہہ رہے ہیں میں نے حکام کو بتایا ہے کہ ان چشموں کی پانی کو روکنے کی بجائے کوئٹہ تک آنے دیا جائے اگر 48 گھنٹے کوئٹہ کو پانی ملے گی تو کافی حد تک مسئلہ حل ہوگا ۔ انہوں نے کہا کہ انجینئروں نے اپنی کمیشن کی خاطر مانگی ڈیم سے کوئٹہ کو پانی کی فراہمی کے لئے پلان غلط طور پر ترتیب دیا ہے اس پلان کے تحت 8 مقامات پر پمپنگ کے ذریعے پانی فراہم کیا جائے گا جو انتہائی مشکل کام ہے ۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت نے تہیہ کر رکھا ہے اس سال ان دونوں ڈیموں پر کام شروع کریں گے اس کام کے لئے ایک اعلیٰ اور بااختیار کمیٹی ہونا چاہیے انجینئر یا ٹھیکیدار اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ موجودہ حکومت بھی ماضی کی طرح آنکھیں بند کرلے گی ۔ صحت اور تعلیم کے بعد پانی کی فراہمی بھی ہماری اولین ترجیح ہے دونوں ڈیموں پر کام کے لئے فوری طور پر کام شروع کرنے کے لئے پی سی ون کو ٹھیک کراکے ٹینڈر کرائے جائیں گے ۔ قرار داد پر ڈپٹی اپوزیشن لیڈر زمرک اچکزئی ، رضا محمد بڑیچ ، سردار عبدالرحمن کھیتران ، نواب ایاز خان جوگیزئی ، ڈاکٹر حامد اچکزئی ، راحیلہ درانی ، سید رضا ، ڈاکٹر رقیہ ہاشمی ، ہینڈری مسیح ،ڈاکٹر شمع اسحاق ، یاسمین لہڑی ، معاذ اللہ موسیٰ خیل اور دیگر نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ کوئٹہ سمیت صوبہ بھر کے عوام پانی کے مسئلے سے دوچار ہے خاص کر کوئٹہ میں ٹینکر مافیا واسا ملازمین کے ساتھ مل کر عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں ۔ واسا کے ڈھائی ہزار ملازمین میں سے بمشکل سو ملازمین کام کررہے ہیں جبکہ باقی گھروں میں بیٹھ کر تنخواہیں وصول کررہے ہیں ۔ مقررین نے کہا کہ پانی ایک بنیادی ضرورت ہے واسا سے اس بارے میں مکمل بریفنگ لی جائے 15 سو کلو میٹر جو پائپ لائن بچھائی گئی ہے اس کی تحقیقات کرائی جائیں ۔ واسا اور پی ایچ ای میں چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں بااثر لوگوں نے کنکشن حاصل کرکے ہر وقت پانی حاصل کررہے ہیں جبکہ غریب عوام بوند بوند کو ترس رہے ہیں پانی سپلائی والے ایک مافیا بن گئے ہیں واسا ملازمین قصداً سرکاری ٹیوب ویلوں کو خراب کردیتے ہیں ۔ کوئٹہ شہر کی آبادی تیس لاکھ سے زائد ہوچکی ہے 3 ہزار ٹیوب ویل لگائے گئے ہیں جن سے جو پانی نکل رہا ہے بدقسمتی سے ان میں سے 97 فیصد ضائع کررہے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو سیورج کی پانی کو قابل استعمال لا کر انہیں واٹر ٹیبل کو اوپر لانے کے لئے استعمال میں لائے جائیں ۔ اراکین نے یہ بھی تجویز دی کہ بجلی اور گیس کی طرح پانی کے لئے بھی گھروں میں میٹر نصب کئے جائیں تاکہ لوگ پانی کے استعمال میں احتیاط کرے ۔ انہوں نے کہا کہ پہاڑوں میں ہنگامی بنیادوں پر چیک ڈیم بنائے جائیں تاکہ سیلابی پانی ضائع نہ ہو ۔ لوگ اس وقت بڑی تکلیف میں ہیں 3 سے 4 ہزار روپے ٹینکر خریدنے پر مجبور ہیں اگر سنجیدہ اقدامات نہ کئے گئے تو کوئٹہ ویران ہوجائے گا ۔ کوئٹہ شہر میں 77 ٹیوب ویل خراب تھے مسئلے کو واسا حکام کے ساتھ اٹھایا گیا جس کے بعد ان ٹیوب ویلوں کی مرمت کرکے پانی کی فراہمی شروع کردی گئی ہیں ۔ مقررین نے کہا کہ 2 سو سال پہلے لوگوں کی و ژن کا زنگی ناوڑ ڈیم بنانے سے لگایا جاسکتا ہے اس وقت لوگو ں نے ریگستان میں زنگی ناوڑ ڈیم بنا کر پانی ذخیرہ کرنے کی کوششیں کرتے رہے بدقسمتی سے آج کوئی اقدام نہیں اٹھایا جارہا۔