|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2013

malikکوئٹہ (آن لائن) وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ ماضی کے حکمرانوں کی غیر سنجیدگی کی وجہ سے بلوچستان میں احساس محرومی و محکومی نے شدت اختیار کی بلوچستان کا مسئلہ خالصتاً قومی، سیاسی اور معاشی ہے اگر اس کو سیاسی انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جاتی تو حالات اس نہج تک نہیں پہنچتے طاقت کے استعمال کی پالیسی اور مخصوص طرزفکر کی وجہ سے حالات بے قابو ہوتے گئے ،ایک خلاء پیدا ہوا اور اس میں تنگ نظری تعصب پسندی اور منافرت کو پنپنے کا موقع مل گیا لیکن بلوچستان کا معاشرہ بنیادی طور پر سیکیولر لبرل اور ترقی پسند سوچ کا حامل ہے جس میں تنگ نظری تعصب پسندی ،مذہبی انتہاء پسندی اور جنونیت کی کوئی گنجائش نہیں نہ صرف بلوچستان میں بلکہ اس پورے خطہ میں امن استحکام ترقی و خوشحالی کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کرنے کیلئے اس مخصوص طرزفکر میں تبدیلی لانے کی ضرورت ہے ان خیالات کا اظہار انہوں نے جذبہ خیر سگالی کے تحت پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجسلیٹو ڈویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی (پلڈاٹ) کے زیراہتمام بلوچستان کے دورے پر آنے والے ارکان اسمبلی کے وفد سے بات چیت کے دوران کیا 14رکنی وفد میں پنجاب اسمبلی کے ارکان شجاع خانزادہ ،پیپلز پارٹی کی رکن اسمبلی فائزہ ملک ،تحریک انصاف کے احمد علی دریشک ،عائشہ ملک و دیگر شامل تھے اس موقع پر پلڈاٹ کے عنایت اللہ ،ممنون بلال ،حمل دوستین بھی موجود تھے ، جبکہ نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکریٹری جنرل میر طاہر بزنجو اور ترجمان وزیر اعلیٰ بلوچستان جان محمد بلیدی بھی شریک تھے، وفد نے بلوچستان کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے پنجاب حکومت اور عوام کی جانب سے ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی جس پر وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے پنجاب اسمبلی کے ارکان پر مشتمل وفد سے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا کہ عمومی طور پر بلوچستان کے حوالے سے جو تاثر پیش کیا جاتا ہے وہ تصویر کا ایک رخ ہے اور ادھورا سچ ہے ہم روز اول سے یہ کہتے آئے ہیں کہ ہمیں مکمل سچ کی جانب بڑھنا ہوگا پنجاب کے ارکان اسمبلی کی آمد خوش آئند ہے اس طرح میل جول بڑھانے سے جو قدورتیں نفرتیں اور غلط فہمیاں ہیں ان کا خاتمہ ہوسکے گا محبتوں کو پروان چڑھانے میں مدد ملے گی جب تک بلوچستان کے احساس محرومی و محکومی کی وجوہات کا سراغ نہیں لگاتے اور انہیں دور نہیں کرتے تو مسائل کے حل کی جانب جانا انتہائی مشکل ہوگا بلوچستان کا مسئلہ خالصتاً قومی، سیاسی و اقتصادی رہا ہے لیکن کبھی ان مسائل کو سنجیدگی سے سیاسی انداز میں حل کرنے پر توجہ نہیں دی گئی بلکہ ہمیشہ طاقت کے استعمال کی آمرانہ پالیسیوں کا سہارا لیا گیا جس کی وجہ سے یہاں جنم لینے والے احساس محرومی و پسماندگی میں شدت آتی گئی بلوچستان کے علاقے ڈیرہ بگٹی و سوئی سے گیس کی دریافت پچاس کی دہائی میں ہوئی ہے لیکن آج سوئی گیس کا ملک کی ترقی میں اسی فیصد حصہ رہا لیکن اس کے باوجود سوئی اور ڈیرہ بگٹی کو گیس فراہم نہ ہوسکی، انہوں نے کہا کہ ملک میں ایک مخصوص سوچ اور طرز فکر کا غلبہ رہا اور حقوق کی جدوجہد کرنے والوں کو غدار گردانتے ہوئے آمرانہ سوچ مسلط کرنے کی کوشش کی اسی سوچ کی وجہ سے ملک دولخت ہوا لیکن ہمارے ملک کے پالیسی ساز اداروں نے ماضی سے سبق حاصل کرکے مستقبل کی جانب بڑھنے اور غلطی نہ دہرانے کے عزم کا اعادہ کرنے کو ضروری نہ سمجھا ،مشرف دور میں یہاں آپریشن مسلط کرکے بزرگ قوم پرست رہنما نواب محمد اکبر خان بگٹی کی شہادت بلوچستان پر ایٹم بم حملہ کرنے کے مترادف تھا ، انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ بلوچ مزاحمت کاروں اور انتہا پسندگروہوں کو مذاکرات کی میز پر لائیں تاکہ بلوچستان میں امن و استحکام کے خواب کو شرمندۂ تعبیر کیا جاسکے ،بلوچ مزاحمت کاروں کو مذاکرات کی میزپر آنے کیلئے قائل کرنے کیلئے ہم سیاسی و جمہوری قوم پرست جماعتوں ،قبائلی قوتوں کو کردار ادا کرنے پر آمادہ کررہے ہیں بلوچستان کل جماعتی کانفرنس بلائیں گے ،جس میں ہماری کوشش ہوگی کہ مذاکرات کی جانب مائل کرنے کیلئے حکمت عملی مرتب کریں اسی طرح ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان میں فرقہ وارایت کا بھی راستہ روکا جائے اور اس کے سامنے پل باندھنے اورمذہبی رواداری،یگانت اور بھائی چارے کی فضا کو پروان چڑھانے کیلئے تمام مکاتب فکر کے علماء کرام کی خدمات حاصل کی جائیں گی تاکہ کوئٹہ سمیت بلوچستان میں امن کی بحالی کو یقینی بنایا جاسکے ،انہوں نے کہا کہ عوام کی جان و مال کا تحفظ اور تعلیم و صحت کے شعبوں کی بہتری اور عوام کے میعار زندگی کو بہتر بنانا ہماری اولین ترجیحات میں شامل ہے مخلوط حکومت بلوچستان کی پسماندگی احساس محرومی کے خاتمہ کیلئے پر عزم ہے ، ہم اپنے طور پر اس کیلئے کوشاں بھی ہیں پولیس اور لیویز غیر فعال تھے ان اداروں کی کارکردگی مایوس کن رہی لیکن ہم ان اداروں کی از سر نو تشکیل کررہے ہیں ان کی نہ صرف استعداد کار بڑھا رہے ہیں بلکہ انہیں جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کیلئے کوشاں ہیں تاکہ عوام کی جان و مال کے تحفظ کو یقینی بنایا جاسکے ،رواں سال کے بجٹ میں تین نئے میڈیکل کالجز اور تین جامعات کیلئے نہ صرف فنڈز مختص کئے ہیں بلکہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کو ہر صورت یقینی بنایا جائے گا انہوں نے کہا کہ این ایف سی ایوارڈ میں تو بلوچستان کے مطالبہ کو تسلیم کیا گیا لیکن دوسری جانب وفاقی پی ایس ڈی پی میں کٹوتی کردی گئی ، انہوں نے کہا کہ اس وقت آواران و کیچ میں بہت بڑے پیمانے پر زلزلے نے تباہی مچائی ،آواران بلوچستان کا پسماندہ ترین ضلع ہے۔