|

وقتِ اشاعت :   October 8 – 2013

کوئٹہ کے مقامی ہوٹل میں گزشتہ روز نیشنل ہیومن نیٹ ورک کے زیر اہتمام ایک روزہ سیمینار منعقد کیاگیا جس میں اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں کے بعض نمائندوں سمیت دیگر این جی اوز سے وابستہ افراد کے علاوہ اراکین بلوچستان اسمبلی اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی ۔ سیمینار کے شرکاء نے بلوچستان کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مشکلات کا تفصیل سے ذکر کیا اور اس حوالے سے مختلف تجاویز بھی دیں ۔ مقررین نے کہا کہ آواران اور دیگر متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی مشکلات نہ صرف موجود ہیں بلکہ ان میں روز بروز اضافہ ہوتاجارہا ہے ۔ متاثرہ علاقوں میں غذائی قلت پیدا ہورہی ہے ۔ لوگ بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں ۔ جس بڑے پیمانے پر تباہی آئی ہے اسی تناسب سے ان علاقوں کو امداد کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں این جی اوز اہم کردار ادا کر سکتی ہیں مگر این جی اوز کے لئے این او سی کی شرط رکھی گئی ہے جو افسوسناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم جانا چاہتے ہیں مگر وہاں این او سی کے بغیر کسی کو کام نہیں کرنے دیا جارہا ہے ۔ سیمینار میں یہ بھی انکشاف ہوا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں اقوام متحدہ اور اس کے ما تحت اداروں پر بھی پہلے پابندی عائد تھی ۔ مقررین نے بلوچستان کے زلزلہ زدہ علاقوں میں بین الاقوامی امداد کو ناگزیر قرار دیا اور اس امر پر تشویش کا اظہار کیا کہ وفاقی حکومت بین الاقوامی امداد کی اپیل میں مسلسل تاخیر کررہی ہے جس سے نقصانات میں مزید اضافے کا خدشہ ہے ۔ مقررین نے کہا کہ متاثرین تک امداد کی رسائی کے لئے وہاں سیز فائر میں کوئی حرج نہیں کیونکہ انسانی زندگی سے بڑھ کر اور کوئی چیز نہیں ۔ سیمینار میں یہ مطالبہ بھی سامنے آیا کہ چونکہ متاثرہ علاقوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے شناختی کارڈ گم ہوگئے ہیں ۔ اس لئے امداد وصول کرنے کے لئے شناختی کارڈ کی شرط ختم کی جائے ۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں جتنی بڑی تباہی آئی ہے اس پر قابو پانا حکومت کے بس کی بات نہیں ۔ ہماری خواہش ہے کہ عالمی اداروں کے ساتھ مل کر امدادو بحالی کے کام کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں اور ہم نے عالمی برادری سے اپیل کی ہے کہ وہ ہمیں امداد دینے کی بجائے متاثرہ علاقوں میں از سر نو مکانات کی تعمیر میں مدد کرے ۔ زلزلہ متاثرین کی بحالی کے لیے عالمی امداد کی اپیل میں وفاقی حکومت کی مسلسل تاخیر کی وجوہات خواہ کچھ بھی ہوں مگر بلوچ عوام کو اس وقت سب سے زیادہ اپنے متاثرہ بھائیوں کی بروقت امداد کی فکر درپیش ہے ۔ بلوچ عوام اپنی مدد آپ کے تحت متاثرین کی ہر ممکن مدد کے لئے مستعد ہیں ۔ مگر جب این جی اوز کو متاثرہ علاقوں میں جانے نہیں دیاجارہا تو وہاں ایک عام آدمی اور وہ بھی بلوچ کس طرح متاثرہ علاقوں میں رسائی حاصل کر پائے گا ۔ بلوچ مزاحمت کاروں سے خائف قوتوں کو شاید یہ خدشہ لاحق ہو کہ امدادی سامان کی آڑ میں بلوچ مزاحمت کاروں کے لئے راشن سپلائی کا بندوبست نہ کیا جائے، اس لئے وہ ہر آنے والے فرد یا جماعت کو مختلف حیلے بہانوں سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہیں اور چاہتی ہیں کہ تن تنہا ہم امدادی سامان کی فراہمی کی ذمہ داری اٹھائیں ۔ جبکہ ایسی خبریں بھی گردش کررہی ہیں کہ اکثر علاقوں میں بلوچ زلزلہ متاثرین نے فورسز کے ذریعے امداد کی وصولی سے انکار کیا ہے ۔ اگرچہ حکومتی ذرائع نے ان خبروں کی تردید کی ہے ۔د یکھا جائے تو اصل معاملہ یہاں ایک قوت کی جانب سے دوسری قوت کو نیچا دکھانے کا نہیں بلکہ بلوچ زلزلہ زدگان کی امدادو بحالی ہے ۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا یہ فیصلہ انتہائی قابل ستائش ہے کہ امدادی سامان کی خرید و فروخت کرنے والوں کے خلاف انسداد دہشت گردی کے تحت مقدمات قائم کیے جائیں گے مگر ہم ان سطور کے ذریعے بلوچستان حکومت سے مطالبہ کرنے کا حق رکھتے ہیں کہ امدادی ریلیف کی فراہمی کا فریضہ سر انجام دینے والے اہلکاروں پر بھی چیک اینڈ بیلنس رکھا جائے اور اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ ریلیف کا سامان چوری نہ ہوجائے اور اگر کوئی اہلکار اس میں ملوث پایا گیا تو اس کے خلاف بھی انسداد دہشت گردی کے ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیاجائے ۔