|

وقتِ اشاعت :   October 10 – 2013

نواب محمد اکبرخان بگٹی شہید کے صاحبزادے نوابزادہ جمیل اکبر بگٹی نے بلوچستان کے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں انسانی جانوں کے ضیاع پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ریاست کی جانب سے زلزلہ متاثرہ علاقوں میں عالمی اداروں کو رسائی نہ دینا تعجب کی بات ہے اورنہ ہی یہ کوئی پہلی بار ہورہا ہے ۔ اس سے قبل بھی سیکورٹی کو جواز بنا کر عالمی اداروں کو بلوچستان کا رخ کرنے سے صرف اس لئے روکا گیا تاکہ یہاں ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں جیسے جرائم کی مرتکب ریاست کہیں بے نقاب نہ ہوجائے ۔ انہوں نے کہا کہ بلا شبہ زلزلہ قدرتی آفت ہے اور اس کا راستہ روکنا کسی انسان کے بس کی بات نہیں لیکن ریاست نے آفات کے نقصانات کو کم کرنے کی بھی کوئی موثر اور جامع حکمت عملی نہیں اپنائی ۔ جتنی بڑی تباہی بلوچستان میں آئی، اگر یہ پنجاب یا پھر ملک کے کسی اور حصے میں آئی ہوتی تو آسمان سر پر اٹھا لیا جاتا اور دھاڑیں مار مار کر عالمی اداروں سے امداد کے لئے کشکول اٹھا لیے جائے لیکن چونکہ تباہی بلوچستان بالخصوص بلوچ علاقوں میں آئی تو این ڈی ایم اے کے چئیرمین نے پہلے روز ہی کہا کہ ہمیں عالمی امداد کی ضرورت نہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ جو عالمی ادارے وہاں رسائی کے خواہاں ہیں ،انہیں بھی جانے کی اجازت تک نہیں دی جارہی ہے ۔ جو یقیناً بلوچ دشمن پالیسیوں کا تسلسل ہے اور ہمارے لئے یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ۔ اس سے قبل 2010ء میں جب سیلاب آیا تب بھی عالمی اور غیر سرکاری اداروں کو روک دیا گیا حالانکہ عالمی اداروں نے جب کشمیر کے زلزلہ متاثرین کی امداد میں بڑے پیمانے پر خورد برد دیکھی تو انہوں نے فیصلہ کیا کہ کرپٹ سرکار کو کچھ نہیں دینا ‘ براہ راست متاثرین کی امداد کی جائے گی ۔ جبکہ ریاست بضد ہے کہ امداد ان کے حوالے کی جائے حالانکہ ریاستی کارکردگی سب کے سامنے عیاں ہے ۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ حالیہ قیامت خیز زلزلے کے باعث آواران اور کیچ کے علاقوں میں ہولناک تباہی دیکھنے میں آئی اور بلوچستان کے سابقہ مصائب و مشکلات کے متاثرین کی حالت زار کو دیکھ کر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بلوچ زلزلہ متاثرین کی بھی داد رسی کے تمام دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ سوائے چند ایک کوششوں کے جو کہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کی مرہون منت ہیں جب وہ بذات خود آواران میں موجود تھے۔ اب باقی ماندہ امداد یا تو منظور نظر افراد میں بندر بانٹ کی جائے گی یا پھر سرکار ہی اس امداد کا حقدار ٹھہرے گی ۔ زلزلہ متاثرہ علاقوں میں تمام تر حکومتی دعوؤں کے بر خلاف زمینی حقائق یہ ہیں کہ متاثرین بے یارو مددگار مصیبت کے دن گزارنے میں لگے ہوئے ہیں اور اپنی مدد آپ کے تحت ریلیف کاکام جاری ہے ۔ البتہ حکومتی نمائندوں نے چند ایک مقامات پر امدادی ریلیف ضرور فراہم کیاتاہم اس سلسلے کو برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جو کہ مشکل لگتا ہے۔ آواران کے دور دراز علاقوں میں سیکورٹی اہلکاروں کے لئے رسائی حاصل کرنا کوئی معمولی بات نہیں تو اس زلزلہ کے باعث مشکل ہی نہیں بلکہ نا ممکن ہے ۔ سیکورٹی کو جواز بنا کر این جی اوز اور غیر ملکی امدادی اداروں کو اس لئے جانے نہیں دیا جارہا تاکہ زلزلہ متاثرین اپنی مشکلات کا رونا رونے کے ساتھ ساتھ کہیں ریاستی مظالم کی روا رکھی جانے والی داستانیں سنانے نہ بیٹھ جائیں۔ آواران نے خود کو دنیا میں روشناس کرانے کیلئے اپنے ہزاروں کی تعداد میں سپوتوں کی قربانی دی اور سینکڑوں کو عمر بھر کے لئے اپاہج بنا دیا ۔ ریاست کو بلوچوں کی کسمپرسی کی نہ پہلے فکر تھی نہ آئندہ ہوگی ۔ آواران میں پینے کا صاف پانی پہلے بھی دستیاب نہیں تھا اور آئندہ بھی اس کا کوئی امکان نہیں۔ لوگ زلزلے سے قبل بھی مٹی کے گھروں میں نصف نصف درجن گھرانوں پر مشتمل دیہہ جات میں رہائش پذیر تھے ۔پہلے بھی ایک ہی جوہڑ سے انسان اورجانور ایک ساتھ پانی پینے پر مجبور تھے ۔ ہاں البتہ اتنا ضرور ہوا کہ اس زلزلے سے پوری دنیا کی توجہ ان کی جانب مبذول ہو کر رہ گئی ہے۔ اب بلوچوں کی غربت ‘ پس ماندگی ‘ افلاس ‘ دکھ درد سے باقی ماندہ دنیا آشنا ہورہی ہے ۔ اسٹیبلشمنٹ کے سحر میں گرفتار پاکستانیوں کو بلوچستان میں صرف تین سردار ہی نظر آتے تھے جو اس شورش کے پیدا کرنے کے ذمہ دار گردانے جاتے تھے مگر اب باقی ماندہ پاکستان کو بالخصوص اور دنیا کو بالعموم ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ کی صورت میں بلوچستان کی دھرتی پر موجود مزاحمتی قوت کا پتہ چل گیا جو نہ سردار ہے نہ نواب اور نہ ہی کوئی میر ہے ۔ ایک عام سا طالب علم ہے جو بلوچ مزاحمت کاروں کے دلوں پر راج کررہا ہے ۔ جو حق خودارادیت کی بات نہیں کرتا‘ علاقائیت کا ذکر نہیں کرتا‘ دھرتی کی بات کرتا ہے ۔ بلوچ حقوق کی بات کرتا ہے ۔ بلوچ ہونے کا ثبوت دیتا ہے ۔ شاید آواران کے زلزلہ متاثرین تک عالمی اداروں سمیت غیر سرکاری تنظیموں کو رسائی فراہم نہ کرنے کا مقصد بھی یہی ہو کہ دنیا کو بلوچوں کی چوتھی اور مضبوط مزاحمتی قوت سے لا علم رکھاجائے ۔