|

وقتِ اشاعت :   October 12 – 2013

بلوچستان کے نامور محقق‘ دانشور ‘ادیب ‘ تاریخ دان آغانصیر خان احمد زئی نے 94سال کی عمر میں گزشتہ روز کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں جان جان آفریں کے سپرد کرتے ہوئے اس فانی دنیا سے دارالبقاء کے سفر پر روانہ ہوگئے ۔ انہیں قلات کے شاہی قبرستان میں سپرد خاک کیاگیا ۔ مرحوم کے جنازہ میں بلوچستان بھر سے سیاستدان ‘ ادباء اور قبائلی شخصیات کے علاوہ عوام کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی ۔ آغا نصیر خان احمد زئی ‘ سابق گورنر بلوچستان خان قلات میرا حمد یار خان کے بھائی تھے۔ بلوچ تاریخ نویسی میں ان کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ ان کی کتاب ’’ تاریخ بلوچستان ‘‘ کو ادبی و علمی حلقوں میں سند کے طورپر پیش کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ براہوئی اور بلوچی گرائمر کے بارے میں بھی انہوں نے کتب تحریر کیں ۔ ان کی وفات یقیناً بلوچ ادبی ‘ علمی حلقوں کے لئے ایک عظیم سانحہ ہے ۔ ان کی رحلت سے پیدا ہونے والا خلاء صدیوں پر نہیں ہوسکے گا۔ بلوچ تاریخ نویسی میں ان کا اپنا ایک الگ اور منفراسلوب ہے اور انہوں نے اپنی کتاب کے لئے عربی و فارسی تواریخ کے مآخذ و مصادر سے کام لیتے ہوئے انتہائی مد لل انداز میں بلوچوں کی تاریخ مرتب کی ۔ خوانین قلات کے شاہی خاندان میں علمی و ادبی اعتبار سے مرحوم واحد شخص تھے۔ انہوں نے اپنے پس ماندگی میں اپنی اس علمی میراث کو کسی جانشین کو نہیں سونپی۔ بلوچ ادبی حلقے ہی ان کی اس میراث کے وارث قرار پائیں گے لیکن انتہائی افسوس کی بات ہے کہ میر نصیر خان احمد زئی جیسی نابغۂ روزگار شخصیت کے انتقال پر صرف اخبارات میں تعزیتی بیانات پر ہی اکتفا کیا گیا ۔ الیکٹرانک میڈیا نے بلوچوں کی اس علمی و ادبی شخصیت کو وہ کوریج نہیں دی جس کے وہ مستحق تھے ۔ اللہ مرحوم کو غریق رحمت کرے اور انکے پس ماندگان کو صبر جمیل عطاء فرمائے! آمین۔