|

وقتِ اشاعت :   October 14 – 2013

گورنر بلوچستان محمد خان اچکزئی نے کہا ہے کہ بلوچستان میں لگنے والے علیحدگی یا آزادی کے نعرے حقیقت پر مبنی نہیں اور نہ ہی ایسا ہوگا کیونکہ بہت تھوڑی تعداد پر مشتمل افراد پورے صوبے کا امن و امان خراب کرکے سمجھتے ہیں کہ ان کی ہر بات مان لی جائے گی جو ان کی بہت بڑی غلطی ہے۔ تھوڑے ہی عرصے میں ان عناصر کو اپنی اصلیت اور ریاست کی طاقت کا درست اندازہ ہوجائے گا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بلوچستان میں آباد بلوچوں او رپشتونوں کے اپنے اپنے علاقے ہیں اور انکے درمیان کسی قسم کا کوئی اختلاف نہیں ہے پشتون علاقوں میں اغواء برائے تاوان کی کوئی واردات نہیں ہوتی ۔ سب بلوچ علاقوں میں ہورہا ہے جو کہ برٹش دور سے ہوتا آرہا ہے ۔ دراصل اس وقت بلوچستان میں سرداری نظام ٹوٹ رہا ہے اور متبادل سیاسی سماجی و معاشرتی نظام نہیں آرہا جس کے باعث ایک خلاء پیدا ہوچکا ہے ۔ اور اس میں مختلف قوتیں اپنی طاقت کا مظاہرہ اس انداز میں کررہی ہیں انہوں نے کہا کہ صوبے میں پہلی مرتبہ حقیقی سیاسی حکومت قائم ہوئی ہے جس میں دوقوم پرست جماعتیں شامل ہیں ۔ناراض بلوچوں سے میں بحیثیت گورنر بات چیت نہیں کر سکتا کیونکہ یہ میرا نہیں بلکہ بلوچستان کے منتخب وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا کام ہے کیونکہ ناراض لوگ ان کے دوست اور رشتہ دار ہیں اور انکی ایک دوسرے سے جان پہچان بھی ہے ۔پشتون قوم پرست جماعت سے گہری رشتہ داری کے بل بوتے پر گورنر بلوچستان بننے والے رکن قومی اسمبلی کے بڑے بھائی نے وفاق کی نمائندگی کا بھر پور ثبوت دیتے ہوئے بلوچ قومی تحریک کے خلاف آخر کار اپنے حقیقی موقف کا اظہار کرتے ہوئے گویا پشتون قوم پرست پارٹی کی ترجمانی بھی کی چونکہ گورنر بلوچستان کا تعلق شمالی بلوچستان کے علاقے سے ہے اور ان کی ہمدردیوں کا محور و مرکز بھی ان کے اپنے علاقے ہیں جہاں واقعی کسی قسم کی مزاحمتی یا علیحدگی پسندی کی تحریک وجود نہیں رکھتی ۔ البتہ طالبان کے روپ میں مسلح قوتیں ان علاقوں میں وجود ضرور رکھتی ہیں جن سے آج کل ریاست پیارو محبت کی پینگیں بڑھانے میں مگن ہے اور گورنر ریاست کے نمائندے کی حیثیت سے اپنے علاقے کی بہتر ترجمانی کررہے ہیں ۔ جبکہ جنوبی بلوچستان جو بلوچ علاقے شمار ہوتے ہیں ادھر گورنر اور ان کی سیاسی پارٹی کی وابستگی ہے نہ ہی ان کی ہمدردی کا کوئی عنصر شامل ہے۔ اگر حقیقتاً کوئی آزادی یا علیحدگی کی تحریک نہیں چل رہی تو پھر آواران میں آنے والے زلزلے کے بعد ریاستی ادارے آئے روز اخبارات کے ذریعے ان بلوچ مزاحمتی قوتوں سے جنگ بندی کی اپیل کیوں کرتے نظر آتے ہیں؟ کوئٹہ میں گورنر ہاؤس سے چند سو گز کے فاصلے پر لا پتہ بلوچوں کے لواحقین کا احتجاجی کیمپ قائم ہے جو دنیا کا طویل ترین احتجاجی کیمپ بن چکا ہے ۔ گورنر اگر ضعیف المعری کے باعث وہاں نہیں جا سکتے تو اپنی سیاسی پارٹی کے قریب واقع دفتر کے ذریعے ان احتجاج کرنے والوں سے ان ہزاروں لاپتہ بلوچوں کی فہرست طلب کرواسکتے ہیں ۔ اگر چند لوگ بدامنی پھیلانے کے ذمہ دار ہیں تو پندرہ ہزار بلوچوں کو کس لئے لا پتہ کیا گیا اور اگر کوئی علیحدگی پسندی کی تحریک بلوچستان میں وجود نہیں رکھتی تو ساڑھے آٹھ سو کے قریب تشدد زدہ لاشیں بلوچ علاقوں کے ساتھ پشتون علاقوں میں کس لئے پھینکی گئیں ۔ جہاں تک ریاست کی طاقت کے اندازے کی بات ہے تو بلوچوں سے بہتر یہ کون جان سکتا ہے کہ ریاست کی کتنی طاقت ہے اور اس طاقت کو بلوچوں کے خلاف کس طرح آزمایا جارہا ہے ۔ ہزار گنجی میں گورنر بلوچستان کی سیاسی وابستگی کے حامل تاجر موجود ہیں اس ہزار گنجی کے بغل میں بلوچ شہداء قبرستان کا حال احوال تو لیا جائے جہاں آئے روز لاپتہ اور جعلی سرچ آپریشنز میں مارے جانے والے بلوچوں کی تدفین کا عمل جاری ہے ۔ جہاں تک پشتون علاقوں میں امن وامان کی صورت حال ہے وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔ گورنر بلوچستان کو شاید چند مہینے قبل ایک ساتھ تین ڈاکٹروں کے اغواء کا واقعہ بھی یاد نہیں جو لورالائی میں پیش آیا تھا اور صوبائی دارالحکومت سے اغواء ہونے والے پشتون ڈاکٹر کی بازیابی کے خلاف فورسز کا آپریشن بھی پشتون علاقوں میں ہی جاری ہے ۔ ویسے تھوڑی بہت اخبارات کا مطالعہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ نیز یاد داشت بڑھانے کے لیے بادام اور اخروٹ کا استعمال بھی کافی فائدہ مندہوسکتا ہے جو کہ پشتون علاقوں کی ہی(وسائل) پیداوار ہے۔ گورنر بلوچستان اگر بلوچوں کے حق میں ہمدردی کا کوئی بول نہیں بول سکتے تو نہ بولیں ‘ کیونکہ بلوچوں کو ان سے کوئی گلہ نہیں جب ان کے اپنے ہی اقتدار نشین ان کی ہمدردی سے گریزاں نظر آتے ہیں تو ایک غیر بلوچ کو کیا پڑی کہ ان کی ہمدردی کرتا پھرے ‘ گورنر بلوچستان بے شک وفاق کی نمائندگی کا فرض نبھائیں مگر بلوچوں کی حقیقت سے انکار کے وفاقی حربے آزمانے سے ضرور گریز کریں ۔