|

وقتِ اشاعت :   October 21 – 2013

mama21آج کل وزیراعظم پاکستان امریکہ کے دورے پر ہیں ان کی وزیر خارجہ جان کیری سے ملاقات ہوچکی آج ان کی ملاقات امریکہ کے صدر باراک اوبامہ سے ہوگی جس میں دو طرفہ تعلقات زیر بحث آئیں گے پاکستان کی دلچسپی تجارت میں توسیع اور سرمایہ کاری میں ہے جبکہ امریکہ خطے کی صورتحال سے پریشان ہے ظاہر ہے کہ امریکہ کی خواہش ہوگی کہ پاکستان کے تعلقات اپنے ہمسایوں خصوصاً بھارت اور افغانستان سے اچھے رہیں پاکستان اس خطے میں اپنا تاریخی کردار ادا کرے تاکہ خطے میں امن وسلامتی یقینی ہو خصوصاً ایسے وقت میں جب امریکہ اپنی اور ناٹو فورسز کو اگلے سال افغانستان سے نکالنا چاہتا ہے امریکہ کی ضرور یہ خواہش ہوگی کہ وہ امن اور سلامتی سے اپنی افواج افغانستان سے نکال لے افغانستان مستحکم رہے اور اس کو دہشت گرد تنظیموں خصوصاً القاعدہ اور اس کے اتحادیوں سے کوئی خطرات لاحق نہ ہوں امریکہ کو یہ شکایت ہے کہ کچھ تنظیموں کو حکومت پاکستان نے اپنی سرزمین پر پناہ دے رکھی ہے اور ان کیخلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی نہیں ہورہی ہے امریکہ کا یہ بھی الزام ہے کہ یہ دہشت گرد گروہ پاکستان کی سرزمین کو استعمال کر کے افغانستان پر حملے کرتے ہیں اس طرح کی شکایات اور الزامات پاکستان لگاتا ہے کہ سوات اور دیر کے طالبان نے بھی افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور افغان اور ناٹو افواج ان کیخلاف کوئی کارروائی نہیں کررہی ہیں حالیہ دنوں بم دھماکے سے پاکستان آرمی کے جنرل آفیسر کمانڈنگ شہید ہوئے اس کی ذمہ داری بھی طالبان نے قبول کرلی تھی پاکستان کو ڈرون حملوں پر بھی شکایت ہے کہ یہ پاکستان کی آزادی اور خود مختاری کیخلاف ہیں گزشتہ مہینوں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کشیدہ رہے ہیں اور ان میں حال ہی میں کچھ بہتری آئی اور امریکہ نے کسی حد تک مالی امداد فراہم کرنے کا وعدہ بھی کرلیا ہے دونوں ممالک حالیہ دنوں میں ایک دوسرے کے قریب آچکے ہیں مگر ان کی سوچ اور تجزیئے میں فرق ہے امریکہ چاہتا ہے پاکستان ان دہشت گردوں کیخلاف فوجی کارروائی کرے جو پاکستان کی سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے امریکی فوجیوں کی زندگی خطرے میں ڈالتے ہیں امریکہ شاید ڈرون حملے صرف اس وجہ سے بند کرسکتا ہے کہ پاکستانی افواج ان مسلح دہشت گردوں کیخلاف کارروائی کرے جس کیلئے امریکہ پاکستان کو مزید فوجی امداد فراہم کریگا اور ایف 16طیاروں میں ایسے آلات نصب کریگا جو ٹھیک ٹھیک نشانہ لگانے کے قابل ہو جائیں گے دوسری جانب پاکستان کا واضح موقف ہے کہ وہ نئے علاقوں میں فوجی کارروائی نہیں کریگا کیونکہ مسلح افواج پہلے ہی ایک بہت بڑے علاقے پر کارروائی کررہی ہے اور ان علاقوں کو کسی قدر صاف بھی کردیا ہے پاکستان کی حکومت کسی دوسرے کے احکامات پر شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کرنے سے قاصر ہے آج کل تو مغربی سرحدوں پر بھی مزید کشیدگی میں اضافہ ہوچکا ہے آئے دن بھارتی افواج پاکستانی علاقوں پر فائرنگ اور شیلنگ کررہی ہے ایسی صورتحال میں مغربی سرحدوں سے افواج کو نکال کر شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی مشکل نظر آتی ہے اس سے بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں ممالک کی سوچ اور پالیسی میں فرق ہے امریکہ پاکستان سے تعاون چاہتا ہے کہ امریکی انخلاء کے بعد افغانستان مستحکم رہے گا اور خطے کے ممالک اس کے استحکام میں مدد دیں جب امریکی افواج افغانستان سے چلی جائے گی امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات کیلئے تیار ہے مگر القاعدہ اور اس کے اتحادیوں سے نہیں اس لئے امریکہ نے افغانستان سے ایک نیا سیکورٹی کا معاہدہ کیا ہے جس کے تحت کچھ امریکی افواج 2014ء کے بعد بھی افغانستان میں رہیں گے اس کے ساتھ کچھ فوجی اڈوں کو بھی امریکی افواج استعمال میں لائے گی دوسرے الفاظ میں امریکی فوجی موجودگی ایک طویل عرصے تک افغانستان میں رہے گی اگر پاکستان تعاون نہیں کرتا تو امریکہ اس خطے کی تھانیداری بھارت کے حوالے کردے گا جس سے پاکستان کے مفادات کو شدید نقصان پہنچنے کا احتمال ہے اس طرح سے امریکہ نے پاکستان کیخلاف ایک مثلث تشکیل دی ہے جس میں امریکہ، افغانستان اور بھارت شامل ہیں جو خطے میں امن اور سلامتی کے معاملات کو دیکھیں گے امریکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان امن دیکھنا چاہتا ہے وہ بھی بغیر کشمیر کا مسئلہ حل کئے دوسرے الفاظ میں امریکہ صاف صاف الفاظ میں یہ حکم دے رہا ہے کہ پاکستان افغانستان اور کشمیر سے دستبردارہوجائے اور خطے میں بھارتی پولیس مین کا کردار ادا کرنے دے مگر پاکستان اس پر امریکہ سے کسی قسم کی سودے بازی نہیں کریگا امریکہ جانے سے چند دن قبل وزیراعظم نے فوجی سربراہ سے ملاقات کی جس کے بعد جو اعلامیہ جاری ہوا اس میں واضح الفاظ میں یہ موجود تھا کہ پاکستان کسی بھی قیمت پر بھارت کے خطے میں تھانیداری کو تسلیم نہیں کریگا۔