|

وقتِ اشاعت :   December 10 – 2013

پورے خطے میں اس وقت خوشی کی ایک لہر دوڑگئی جب ایران اور چھ طاقتور ترین ممالک کے درمیان جوہری مسئلہ پر ایک معاہدہ ہوگیا۔ اس معاہدہ کی رو سے بین الاقوامی برادری ایران کے جوہری پروگرام کو مسلسل طور پر مانیٹر کرے گی۔ ایران اس کا پابند ہوگا کہ وہ یورینیم کی افزودگی کو صرف پانچ فیصد پر رکھے۔ موجودہ حالات میں ایران 20فیصد تک یورینیم افزودگی کررہا ہے جس کو وہ کم کرکے پانچ فیصد تک لائے گا۔ اس کے ساتھ ہی ایران اپنے تین نئے ریکٹر زکو بین الاقوامی معائنہ کے لئے کھول دے گا۔ ایران روز اول سے یہ کہتا آرہا ہے کہ وہ ایٹم بم اور جوہری ہتھیار بنانے کے خلاف ہے کیونکہ اسلام میں اس کو سختی کے ساتھ منع کیا گیا ہے۔ خون ناحق پر ایران کے رہبر کا فتویٰ بھی سامنے آیا جس کا تذکرہ صدر اوبامہ نے اپنی ایک تقریر میں بھی کیا تھا۔ اس معاہدے کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ خطے میں کشیدگی کم ہوگئی۔ ایران نے اپنے ہمسایہ عرب ممالک سے تعلقات دوبارہ استوار کرنے شروع کردیئے۔ ایرانی وزیرخارجہ گلف ممالک کے دورے پر ہیں اور ان ممالک کو یہ یقین دلارہے ہیں کہ ایران پورے خطے میں کشیدگی کا خاتمہ چاہتا ہے اور وہ دوستانہ تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے اس میں سرفہرست گلف ممالک کی سیکورٹی ہے۔ خطے کے دو اہم ممالک، اسرائیل اور سعودی عرب کو اس جوہری معاہدے پر تحفظات ہیں۔ اسرائیل اس کو ایک ’’گندہ معاہدہ‘‘ قرار دیتا ہے جبکہ سعودی عرب کو یہ شک ہے کہ ایران چوری چھپے جوہری ہتھیار بنانے کی کوشش کررہا ہے۔ دوسری جانب ایران کا پریس یہ الزام لگارہا ہے کہ ایران بین الاقوامی منڈی سے جوہری ہتھیار خریدنے کی کوششیں کررہا ہے جس کی تردید سعودی عرب نے کی تھی۔ البتہ سعودی عرب کی یہ خواہش ہے کہ مغربی ممالک خصوصاً امریکہ سعودی عرب میں بھی جوہری ریکٹر قائم کرے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان شام، لبنان اور گلف ممالک کے معاملات پر شدید اختلافات ہیں اور دونوں اس خطے میں ایک دوسرے کے مخالف ہیں۔ البتہ پاکستان اور ایران کے عوام نے اس جوہری معاہدہ کا خیرمقدم کیا ہے اورتوقع ظاہر کی ہے کہ امریکہ اور دوسرے مغربی ممالک ایران کے خلاف تمام معاشی تجارتی اور مالی پابندیاں اٹھالیں گے تاکہ خطے میں معاشی ترقی کی دوڑ کو تیز تر کیا جائے۔ جوہری معاہدے کے بعد یہ خطرہ ٹل گیا ہے کہ ایران گیس پائپ لائن پر امریکہ اضافی پابندیاں لگادے گا۔ پاکستان اور ایران گیس پائپ لائن معاہدے پر دوبارہ مذاکرات کررہے ہیں۔ ان میں گیس کی قیمت کا معاملہ بھی شامل ہے۔ پاکستان کے توانائی کے بحران کے خاتمے میں ایران کلیدی کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس میں ایران گیس پائپ لائن کا اہم ترین رول ہوگا۔ امید ہے کہ کامیاب مذاکرات کے بعد یہ منصوبہ اگلے سال اور مقررہ مدت میں مکمل ہوگا۔ دوسری جانب ایران کے پاس اضافی بجلی برآمد کے لئے موجود ہے۔ ایران اس وقت 124,000میگا واٹ بجلی پیدا کررہا ہے۔ ایران پاکستان کو آسانی سے 20ہزار میگاواٹ فروخت کرنے کو تیار ہے مگر اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ہے کہ پاکستان ایران سے اضافی بجلی خریدے گا۔لیکن اس خطے میں تشویش کی لہر دوبارہ دوڑ گئی جب امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل میں یہ اعلان کیا کہ امریکہ ایران کے خلاف معاشی اور تجارتی پابندیاں نہیں اٹھائے گا۔ اس اعلان کے بعد پورے خطے میں کشیدگی کے بڑھنے کے خطرات پیدا ہوگئے ہیں جو پاکستان کے لئے تشویش کا باعث بن سکتے ہیں۔ مضبوط اور مستحکم ایران پاکستان اور خطے کے مفاد میں ہے۔ ایران کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی سے پاکستان اور اس کی سالمیت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اس لئے ایسے ایران دشمن اعلانات سے پاکستان میں تشویش کا ہونا لازمی امر ہے۔ پاکستان یہ جائز امید رکھتا ہے کہ امریکہ اور اسکے اتحادی جوہری معاہدے کے بعد ایران پر سے تمام معاشی، تجارتی اور مالی پابندیاں اٹھالیں گے۔