|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2013

بلوچستان میں عوام الناس اور حکومت کو بہت سی مشکلات کا سامنا تھا اور ہے، اس کے باوجود وقت پر مقامی کونسلوں کے انتخابات کرانا اور کامیابی کے ساتھ کرانا ایک معجزہ سے کم نہیں ہے۔ انتخابات پرامن ماحول میں ہوئے اور بد امنی کا کوئی بڑا واقعہ پیش نہیں آیا خصوصاً مقامی انتخابات کے حوالے سے۔ ویسے تو بلوچستان میں سیاسی تنازعات کے باعث آئے دن واقعات ہوتے رہتے ہیں ۔ اور سیاسی تنازعات کی موجودگی کا ایک اظہار بھی ہے، نوکر شاہی کا اس بات پر بضد ہونا کہ بلوچستان میں کوئی سیاسی تنازعات نہیں ہیں اور عام لوگ پاگل ہوگئے ہیں اور انہوں نے بلاجواز حکومت سے لڑنا شروع کردیا ہے۔ ان تمام وجوہات کے باوجود مقامی کونسلوں کے پرامن انتخابات جمہوریت اور نمائندہ حکومت کے لئے خوش آئند بات ہے جس سے جمہوری ادارے نچلی سطح پر مضبوط ہوں گے اور مقامی لیڈر شپ کو تربیت حاصل کرنے کا موقع ملے گا۔ جمہوری ادارے مضبوط ہوں گے، نمائندہ حکومت کا سب سے پہلا اور اہم کام یہ ہے کہ وہ مقامی کونسلوں کے فنڈ الگ کرے اور ان کو فوری طور پر ریلیز کرے تاکہ اسی مالی سال میں مقامی مسائل کو حل کرنے کا عمل شروع ہوجائے ۔مقامی مسائل کے حل کے لیے دور دراز کے لوگ کوئٹہ کا رخ نہ کریں۔ صوبائی حکومت اہم ترین معاشی اور سماجی ترقیاتی اسکیموں پر اپنی توجہ مرکوز کرے جبکہ مقامی مسائل کو مقامی کونسلوں کو حل کرنے دیں اس کے لیے یہ ضروری ہے کہ اختیارات کی تقسیم کا عمل جلد سے جلد مکمل ہو ۔ مقامی کونسلوں کے انتخابات کے معاملے میں بلوچستان سبقت لے گیا ہے اور باقی صوبے شاید یہ کام اگلے مالی سال سے شروع کریں گے۔ بظاہر مقامی کونسل کی سیاست اور صوبائی حکومت کے درمیان کوئی بڑا تنازعہ نہیں ہے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے مقامی کونسلوں کا نظام صوبائی حکومت کے ماتحت رہا اور اس میں کوئی قباعت نہیں ہے۔ صوبائی حکومت ان کو وسائل فراہم کرتی ہے اور ان کونسلوں کے لئے قانون سازی بھی کرتی ہے اور اسی مناسبت سے ان پر کنٹرول کرتی ہے۔ اس سے قبل فوجی آمروں کو مقامی کونسلوں سے شدت سے محبت رہی ہے کیونکہ وہ اس نظام کو پارلیمانی سیاست کے خلاف استعمال کرتے تھے۔ اس کوکبھی Electoral Collegeبناتے تھے اور کبھی ان کو استعمال کرتے ہوئے سیاسی معاملات پر ریفرنڈم کراتے تھے اور اپنے مذموم مقاصد حاصل کرتے رہتے تھے۔ انیں اختیارات کی نچلی سطح تک تقسیم سے کوئی دلچسپی نہیں تھی بلکہ اس نظام کو اپنی فوجی حکمرانی کے لئے قانونی جواز کے طور پر پیش کرتے تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے مقامی کونسلوں کو سیاسی طور پر استعمال کرنے کی کوشش کی جس کے لئے انہوں نے آئین کو پامال کیا اور صوبائی اختیارات میں دخل اندازی کی اور مقامی کونسلوں کے ایک متبادل نظام کو صوبوں پر مسلط کیا۔ لوگوں نے پہلی فرصت میں اس نظام کو نہ صرف رد کیا بلکہ اس کو تاریخ کے سرد خانے میں دفن کردیا۔ آج کل ایک اچھا نظام بنایا گیا ہے جس سے مقامی کونسلوں کے قیام کے فوائد عوام اور حکومت دونوں کو ملیں گے۔ حکومت مقامی مسائل مقامی کونسلوں کے سپرد کررہی ہے اور اپنی پوری توجہ امن امان، معاشی ترقی اور سماجی ترقی پر صرف کرے گی۔ سرکاری فنڈ اور ترقیاتی فنڈ گٹر بنانے پر ضائع نہیں ہوں گے۔ امید ہے کہ صوبائی اسمبلی کے ارکان بلوچستان کا مجموعی ترقیاتی بجٹ بنائیں گے اور اس پر عمل درآمد کے لئے حکومتی مشینری کو سونپ دیں گے۔ ان کی کوئی ذاتی اور حلقے کی کوئی اسکیم نہیں ہوگی۔ یہ مجموعی ترقیاتی منصوبہ ہوگا جس کی نگرانی اسمبلی اور کابینہ کرے گی۔ وزراء اور ایم پی اے حضرات انفرادی طور پر کچھ نہیں کرسکیں گے۔