|

وقتِ اشاعت :   December 16 – 2013

Irfanتقریباً ایک دہائی تک بلاشرکت غیرے دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کرنے والے آسٹریلیا سے زیادہ کس کی خواہش ہوگی کہ وہ مسلسل فتوحات حاصل کرے اور اپنے کھوئے تمام اعزازات دوبارہ سمیٹے۔ لیکن۔۔۔۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے تیز باؤلرز کے لیے باریاں مقرر کر رکھی ہیں۔ ہر چند مقابلوں کے بعد کسی باؤلر کو آرام کروا کر دوسرے گیندباز کو موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کوئی اچھا باؤلر ہاتھ آ جائے، کوشش ہوتی ہے کہ اس ’سونے کے انڈے دینے والی مرغی’ کے سارے انڈے ایک ہی ساتھ حاصل کرلیے جائیں، چاہے اس کے لیے مرغی کو کیوں نہ ذبح کرنا پڑے۔ آپ اشارہ سمجھ گئے ہوں گے، ہم محمد عرفان کا ذکر کرنا چاہ رہے ہیں۔ تمام تر تنبیہ کے باوجود ان کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور نتیجہ ان کی مسلسل دو سیریز میں باہر بیٹھنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ دورہ جنوبی افریقہ کے بعد وہ سری لنکا کے خلاف رواں ماہ شروع ہونے والی سیریز بھی نہیں کھیل پائیں گے۔ ہر طرز کی کرکٹ میں استعمال کرکے تاریخ کے بلند ترین قامت کے حامل اس باؤلر کا جس طرح استحصال کیا گیا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ سمجھے بغیر کہ محمد عرفان نہ صرف پائے کا گیندباز ہے، بلکہ ’اسپیشل کیس’ بھی ہے۔ 7 فٹ 1 انچ کی قامت اس کے جسم پر بہت اضافی بوجھ کا سبب بنتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے کھلاڑی کو بہت احتیاط کے استعمال کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن جتنے احتیاط کی ضرورت تھی، اتنی ہی بے احتیاطی برتی گئی۔ ٹیم کے دیگر گیندباز جیسا کہ جنید خان اور عمر گل سمیت تقریباً سبھی کو زخمی ہونے یا آرام دیے جانے کے باعث بین الاقوامی کرکٹ سے کنارہ کشی کا موقع ملا لیکن’چھٹی اسے نہ ملی، جس نے سبق یاد کیا’، پے در پے اور ہر طرز کی کرکٹ میں کھلانے کے بعد محمد عرفان کو بالآخر ہسپتال پہنچا کر ہی دم لیا گیا۔جب 2010ء کے دورہ انگلستان کے ایک روزہ مرحلے میں کھیلنے کے لیے محمد عرفان کو طلب کیا گیا تھا تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر پاکستان نے اس باؤلر کو طویل عرصے تک استعمال کرنا ہے تو طے کرنا ہوگا کہ انہیں کس طرز کی کرکٹ میں اور کس تواتر کے ساتھ کھلانا ہے۔ گو کہ سفر کی طویل تکان کے باوجود انہیں انگلستان میں دو میچز میں کھلائے گئے اور وہ خدشات کے عین مطابق دونوں میں بری طرح ناکام ہوئے۔ یوں ابتدا 4 ہی میں محمد عرفان کے بین الاقوامی کرکٹ کو سخت دھچکا پہنچایا گیا اور وہ دو سال تک دوبارہ ٹیم میں شامل نہ ہو سکے۔ گزشتہ سال کے انہی ایام میں انہیں دور? بھارت کے لیے منتخب کیا گیا جہاں انہوں نے اپنی کارکردگی سے شائقین کے دل موہ لیے اور پھر رواں سال کے اوائل میں جنوبی افریقہ کے دورے میں قومی ٹیم کی ناکامی کے باوجود عرفان کی کارکردگی اپنی جگہ نمایاں تھی۔ بہرحال، دور? جنوبی افریقہ ہی میں عرفان کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع بھی دیا گیا۔ گو کہ بیشتر ماہرین کا کہنا تھا کہ عرفان کی جسمانی ساخت کو دیکھتے ہوئے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے فٹ رہنے کی سطح ایک عام کھلاڑی جتنی نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ ان کا معمول سے بڑھا ہوا قد اور 31 سال سے زیادہ عمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں صرف محدود اوورز کی کرکٹ کھلانے کی بات کی گئی لیکن انتظامیہ کے ’کانوں پر جوں تک نہ رینگی’۔ بالآخر، متحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے تمام میچز کھیلنے کے بعد آخری ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں عرفان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ اپنا دوسرا اوور پھینکنے کے دوران وہ گرپڑے اور پھر دوبارہ کھیل میں واپس نہ آ سکے۔ اب عرفان نہ صرف دورہ جنوبی افریقہ میں نہیں کھیل پائے بلکہ سری لنکا کے خلاف کارکردگی پیش کرکے 2013ء4 کو یادگار سال بنانے سے بھی محروم رہ گئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عرفان بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی کیا محمد عرفان کو ضایع کیا گیا ہے؟ تقریباً ایک دہائی تک بلاشرکت غیرے دنیائے کرکٹ پر حکمرانی کرنے والے آسٹریلیا سے زیادہ کس کی خواہش ہوگی کہ وہ مسلسل فتوحات حاصل کرے اور اپنے کھوئے تمام اعزازات دوبارہ سمیٹے۔ لیکن۔۔۔۔ اس کے باوجود انہوں نے اپنے تیز باؤلرز کے لیے باریاں مقرر کر رکھی ہیں۔ ہر چند مقابلوں کے بعد کسی باؤلر کو آرام کروا کر دوسرے گیندباز کو موقع دیا جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں کوئی اچھا باؤلر ہاتھ آ جائے، کوشش ہوتی ہے کہ اس ’سونے کے انڈے دینے والی مرغی’ کے سارے انڈے ایک ہی ساتھ حاصل کرلیے جائیں، چاہے اس کے لیے مرغی کو کیوں نہ ذبح کرنا پڑے۔ آپ اشارہ سمجھ گئے ہوں گے، ہم محمد عرفان کا ذکر کرنا چاہ رہے ہیں۔ تمام تر تنبیہ کے باوجود ان کا بے دریغ استعمال کیا گیا اور نتیجہ ان کی مسلسل دو سیریز میں باہر بیٹھنے کی صورت میں نکل رہا ہے۔ دورہ جنوبی افریقہ کے بعد وہ سری لنکا کے خلاف رواں ماہ شروع ہونے والی سیریز بھی نہیں کھیل پائیں گے۔ ہر طرز کی کرکٹ میں استعمال کرکے تاریخ کے بلند ترین قامت کے حامل اس باؤلر کا جس طرح استحصال کیا گیا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔ یہ سمجھے بغیر کہ محمد عرفان نہ صرف پائے کا گیندباز ہے، بلکہ’اسپیشل کیس’ بھی ہے۔ 7 فٹ 1 انچ کی قامت اس کے جسم پر بہت اضافی بوجھ کا سبب بنتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ایسے کھلاڑی کو بہت احتیاط کے استعمال کرنے کی ضرورت تھی۔ لیکن جتنے احتیاط کی ضرورت تھی، اتنی ہی بے احتیاطی برتی گئی۔ ٹیم کے دیگر گیندباز جیسا کہ جنید خان اور عمر گل سمیت تقریباً سبھی کو زخمی ہونے یا آرام دیے جانے کے باعث بین الاقوامی کرکٹ سے کنارہ کشی کا موقع ملا لیکن’چھٹی اسے نہ ملی، جس نے سبق یاد کیا، پے در پے اور ہر طرز کی کرکٹ میں کھلانے کے بعد محمد عرفان کو بالآخر ہسپتال پہنچا کر ہی دم لیا گیا۔جب 2010ء کے دورہ انگلستان کے ایک روزہ مرحلے میں کھیلنے کے لیے محمد عرفان کو طلب کیا گیا تھا تو اسی وقت اندازہ ہوگیا تھا کہ اگر پاکستان نے اس باؤلر کو طویل عرصے تک استعمال کرنا ہے تو طے کرنا ہوگا کہ انہیں کس طرز کی کرکٹ میں اور کس تواتر کے ساتھ کھلانا ہے۔ گو کہ سفر کی طویل تکان کے باوجود انہیں انگلستان میں دو میچز میں کھلائے گئے اور وہ خدشات کے عین مطابق دونوں میں بری طرح ناکام ہوئے۔ یوں ابتداء ہی میں محمد عرفان کے بین الاقوامی کرکٹ کو سخت دھچکا پہنچایا گیا اور وہ دو سال تک دوبارہ ٹیم میں شامل نہ ہو سکے۔ گزشتہ سال کے انہی ایام میں انہیں دورہ بھارت کے لیے منتخب کیا گیا جہاں انہوں نے اپنی کارکردگی سے شائقین کے دل موہ لیے اور پھر رواں سال کے اوائل میں جنوبی افریقہ کے دورے میں قومی ٹیم کی ناکامی کے باوجود عرفان کی کارکردگی اپنی جگہ نمایاں تھی۔ بہرحال، دورہ جنوبی افریقہ ہی میں عرفان کو ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا موقع بھی دیا گیا۔ گو کہ بیشتر ماہرین کا کہنا تھا کہ عرفان کی جسمانی ساخت کو دیکھتے ہوئے صاف اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کے فٹ رہنے کی سطح ایک عام کھلاڑی جتنی نہیں ہو سکتی۔ اس کی وجہ ان کا معمول سے بڑھا ہوا قد اور 31 سال سے زیادہ عمر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انہیں صرف محدود اوورز کی کرکٹ کھلانے کی بات کی گئی لیکن انتظامیہ کے ’کانوں پر جوں تک نہ رینگی’۔ بالآخر، متحدہ عرب امارات میں جنوبی افریقہ کے خلاف سیریز کے تمام میچز کھیلنے کے بعد آخری ٹی ٹوئنٹی مقابلے میں عرفان کی ہمت ٹوٹ گئی۔ اپنا دوسرا اوور پھینکنے کے دوران وہ گرپڑے اور پھر دوبارہ کھیل میں واپس نہ آ سکے۔ اب عرفان نہ صرف دورہ جنوبی افریقہ میں نہیں کھیل پائے بلکہ سری لنکا کے خلاف کارکردگی پیش کرکے 2013ء4 کو یادگار سال بنانے سے بھی محروم رہ گئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عرفان بین الاقوامی کرکٹ میں واپسی میں کتنا وقت لگائیں گے اور ویسی ہی کارکردگی دکھائی پائیں گے یا ان کے کیریئر کا اختتام بھی محمد زاہد کی طرح افسوسناک انداز میں ہوگا۔