|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2013

کوئٹہ ( پ ر) بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کا چھٹا مرکزی کمیٹی کا اجلاس مرکزی سینئر وائس چیرپرسن بانک کریمہ بلوچ کے زیرِ صدارت منعقد ہوا، اجلاس میں سیکریٹری رپورٹ، تنظیمی اُمور، تنقید برائے تعمیر، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال اور آئندہ کا لائحہ عمل زیرِ بحث رہے۔اجلاس سے مرکزی سینئر وائس چیرپرسن بانک کریمہ بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں ریاستی دہشتگردی میں روز بروز اضافہ ہورہاہے، بلوچ سماج میں بڑھتے ہوئے شعورِ آزادی ، بلوچ سیاسی جماعتوں کی کامیاب حکمت عملی اور بلوچ آزادی پسند تنظیموں کی کامیاب مزاحمت سے ریاست اخلاقی شکست کھا چکی ہے ، ریاست اپنے وہی پرانے حربے بلوچستان میں بروئے کار لا رہی ہے جو اس نے 1971 میں بنگلہ دیش میں استعمال کیا تھا ۔ یعنی سب سے پہلے اپنے Bullet & Gold پالیسی کو نافذ کرکے ، اگر کوئی ریاست کے سامنے سر بسجود ہونے کو تیار ہوا تو اسے وزارتوں ، اسلحہ ، مال و زر اور لوٹ مار کی آزادی کی صورت میں کھلی چھٹی دی جانے لگی اور اگر کوئی اپنے قومی غیرت و حمیت کو سامنے رکھ کر ریاست کے آگے جھکنے پر تیار نا ہوا تو اسے اسی ماورائے قانون قتل کے صورت میں اس کے انجام پر پہنچایا جانے لگا ۔ اس ریاستی بربریت کی اعلیٰ مثال ہم اس کے Kill and Dump پالیسی یعنی مارو اور پھینکو میں دیکھ سکتے ہیں جس میں ابھی تک ایک ہزار سے زائد بلوچ سیاسی کارکنان شہید کئے جاچکے ہیں ۔ جب ان ریاستی ہتھکنڈوں سے بھی بلوچ تحریک آزادی کے رفتار میں کوئی بھی کمی واقع نہ ہوئی تو اب ریاست بلوچ تحریک آزادی کیخلاف بڑے پیمانے پر صف بندی کرچکی ہے۔ جس میں خاص کر منشیات فروش، قبائلی لشکر ، مذہبی انتہاء پسند،قوم پرستی کے لبادے میں چھپے موقع پرست، گماشتے سردار اور ڈیتھ اسکواڈ شامل ہیں۔بلوچستان میں اپنے آذمودہ حربے یعنی مذہب کے نام پر گروہوں کو تشکیل دیکر بلوچ قومی تحریک کے کیخلاف استعمال کررہاہے، جس طرح بلوچستان کے علاقے مشکے ، آواران، ڈنڈار، گشکور، مالار اور گرد نواح کے علاقوں میں حالیہ زلزلہ کے دوران مذہبی شدت پسند گروہوں کو مختلف فلاحی فاونڈیشن کے نام پر کھلی چھٹی دی گئی ہے ، ان انتہاء پسندوں میں قابلِ ذکر عالمی دہشت گرد حافظ سعید کا جماعت الدوعوۃ بھی شامل ہے ۔ جو سرکاری سرپرستی میں یہاں اپنے جڑیں قائم کرنے کے درپے ہے اور بلوچ سیکولر سماج میں مذہبی انتہاء پسندی اور عدم برداشت جیسے رجعتی رجحانات کو پھیلانے کی چکر میں ہے تاکہ انتہاپسندی کے زریعے بلوچ سیکولر معاشرے کو مذہبی تنگ نظری کی طرف دکھیلنے میں کامیاب ہوجائیں اور وہ بلوچ عوام کو مذہب کے نام پر ورغلا کر بلوچ قوم پرستی کے جزبے کو کمزور کرسکے، ان مذہبی گروں کے سربراہی میں ریاستی فورسز Heart & Mind آپریشن کرکے بلوچ عوام کے دلوں میں اپنے لیے ہمدردی پیدا کرنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ لیکن یہاں بھی اس وقت ریاست کو منہ کی کھانی پڑی جب بلوچ عوام نے کسی بھی قسم کا امداد لینے سے انکار کردیا۔ بلوچوں کی طرف سے ریاست کے 11 مئی کے جنرل الیکشن کا مکمل بائیکاٹ دیکھنے کے بعد بلدیاتی الیکشن منعقد کرانے کی خاطر بلوچستان کے حکومت نے فو ج سے مدد کا مطالبہ کردیا ۔اسی لئے انہوں نے بلدیاتی انتخابات سے قبل ہی ہزاروں سیکو رٹی اہلکاروں کو بلوچستان کے طول وعرض میں تعینات کرکے جاری کاروائیوں میں شدت لاکر مکران،نصیرآباد ،ڈربی ،RD-238نیوکاہان اور ڈیرہ بگٹی میں درجنوں بلوچ فرزندوں کو اغواء اور شہید کیا ۔لیکن ان سارے حربوں کے باوجود بلدیاتی انتخابات پچھلے انتخابات سے بھی بڑی ناکامی ثابت ہوئی ۔ ووٹروں کی شرکت تو درکنار اس بار پاکستان کو یہاں انتخابی امیدوار بھی میسر نہیں آئے ۔ان نام نہاد انتخابات کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت یہ ہے کہ آدھے سے زیادہ نشستوں پر کسی امیدوار نے بھی کاغذات نامزدگی جمع تک نہیں کی اور کئی علاقوں میں پولنگ اسٹیشن تک قائم کرنے میں مکمل ناکام رہا۔