|

وقتِ اشاعت :   April 15 – 2014

ایرانی مجلس کے سرکاری بنچوں کے ارکان اور بعض ایرانی اہلکار اور وزراء جان بوجھ کر پاکستان اور ایران کشیدگی کو نہ صرف برقرار رکھے ہوئے ہیں بلکہ اس میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے ۔ یہ سب کچھ کیوں کیا جارہا ہے؟ تا حال اس کی معلومات ہم تک نہیں پہنچیں ۔ مجلس کے اراکین اور ایرانی وزراء کا لہجہ اور رویہ روز بروز تلخ اور تند ہوتا جارہا ہے ۔ ایرانی حکام یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں کہ پانچواں زیر حراست محافظ ہلاک ہوچکا ہے ۔ یہ بات طے ہے کہ چاروں محافظین کی رہائی جیش العدل سے ایک ڈیل کے نتیجے میں ہوئی ۔ اس میں سنی عالم دین اور معروف بلوچ رہنماء نے اہم کردار ادا کیا۔ اس سے قبل زاہدان کے جامع مسجد میں جمعہ کے خطبے کے دوران انہوں نے اعلان کیا کہ کسی بھی انسان کو یرغمال بنانا اور قتل کرنا اسلام میں حرام ہے ۔ اس ڈیل کے نتیجے میں ایرانی حکومت نے بہت سے بلوچ کو جیلوں سے رہا کیا ۔ اس کی تصدیق پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھی کی تھی کہ ان کی رہائی ایک ڈیل کے وجہ سے ہوئی، اس میں پاکستانی حکومت اور حکام کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔ پاکستانی حکام یہ تردید کرتے رہے کہ اغواء کندگان پاکستان کی سرزمین پر ہیں ۔ دوسری جانب ایرانی مجلس کے اراکین ‘ وزراء اور سرکاری اہلکار ‘ پاکستان پر الزامات لگا رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ پاکستان کی حکومت ان واقعات کی ذمہ دار ہے ۔ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ پانچویں گارڈ کی بازیابی کے لئے ایرانی حکومت ،اس کی وزارت خارجہ اور ایرانی مجلس کے ارکان پاکستان کے خلاف مہم چلائیں گے۔ یہ ایک واحد واقعہ ہے جس نے ایران اور پاکستان کے روایتی تعلقات کو نہ صرف نقصان پہنچایا ہے بلکہ اس میں خطر ناک حد تک کشیدگی بھی پیدا کی ہے ۔ ایرانی میڈیا اور مجلس کے اراکین نے پاکستان پر الزامات کی بوچھاڑ کردی ہے ۔ ایرانی حکومت اس واقعہ کو پروپیگنڈہ مہم کا حصہ بناتے ہوئے اس میں تندہی اور تیزی لارہی ہے ۔ حالانکہ بعض ایرانی رہنماؤں نے ابتداء ہی میں کہا تھا کہ اس واقعہ میں امریکا اور اس کے ایجنٹ ملوث ہیں جو اسلامی مملکت کو عدم استحکام کا شکار کرنا چاہتے ہیں ۔ جیش العدل ایک نہ معلوم گروہ ہے ۔ پاکستان کے شہری اس کے متعلق کوئی معلومات نہیں رکھتے ۔ ممکن ہے کہ یہ چند لوگوں تک محدود ہو ۔ اگر حکومت پاکستان اور عوام الناس کے پاس ان سے متعلق معلومات ہوتیں تو معاملہ کب کا حل ہوچکا ہوتا اور ایرانی محافظین کب کے بازیاب ہوچکے ہوتے ۔ بہر حال ایک افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس ایک واقعہ نے دونوں مملکوں کے تعلقات کو کشیدہ کردیاہے ۔ ایرانی محافظین آئے دن پاکستانی بلوچ علاقوں کے خلاف فوجی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔ اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے ۔لوگوں میں خوف و ہراس پیدا کیاجارہا ہے ۔ غیر مسلح شہریوں اور ان کے گاؤں پر گولیاں برسائی جارہی ہیں ۔ ان پر شیلنگ کی جارہی ہے ۔ ان کے مکانات پر مارٹر گولے اور راکٹ داغے جارہے ہیں جس میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہوچکی ہیں ۔ یہ معلوم نہیں کہ ایرانی حکومت ہوش و حواس کھو چکی ہے یا لوگوں کو جان بوجھ کر ہراساں کیا جارہا ہے۔ حال ہی میں بلا جواز فائرنگ کی وجہ سے خاتون خانہ اپنے گھر کے اندر گولیاں لگنے سے زخمی ہوئی ۔یہ واقعہ تال آپ ‘ ایرانی سرحد کے قریب اور تفتان کے گردونواح میں پیش آیا جس کے خلاف لوگوں نے جلوس نکالا اورایران کی جارحانہ پالیسی کی مذمت کی اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ اس بلا جواز فائرنگ کے خلاف حکومت ایران سے احتجاج کرے۔ اس سے قبل ایرانی افواج بلوچستان کے بعض علاقوں میں فوجی کاررائیاں کرچکی ہیں اورکئی لوگوں کو ہلاک ‘ بعض کو زخمی اور کئی ایک کو اغواء کرکے ایران لے گئے ۔ ایران کو شبہ تھاکہ ان کا تعلق جیش العدل سے ہے ۔ بعض مبصرین کو یقین ہے کہ ایرانی حکام یہ تمام فوجی کارروائیاں او رپروپیگنڈہ مہم جان بوجھ کر چلا رہے ہیں۔ ایران کی حکومت پاکستان کی اندرونی بے چینی سے پریشان ہے اور خود کو ایسی صورت حال میں محفوظ نہیں سمجھتا ۔ اس لئے ایران نے اس واقعہ سے قبل بڑی تعداد میں مسلح افواج کے دستے اور ٹینک پاکستان کے سرحد کے قریب پہنچائے ہیں تاکہ ہنگامی صورت حال میں ان کو استعمال میں لایا جائے ۔ دوسری جانب پاکستان کی حکومت نے کسی بھی قسم کی فوجی پیش بندی ابھی تک نہیں کی ہے ۔ اس امید کے ساتھ کہ ایران کے ساتھ تعلقات دوبارہ معمول پر آجائیں گے۔ پاکستان کے تعلقات افغانستان اور بھارت سے کشیدہ ہیں ۔ پاکستان ایران سے تعلقات قطعاً بگاڑنا نہیں چاہتا اس لئے حکومت پاکستان صبر کا مظاہرہ کررہا ہے ۔