|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2014

کوئٹہ: بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے سینئر صحافی نجی ٹی چینل کے اینکر حامد میر پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے قاتلوں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دی جائے اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے عملی اقدامات اٹھائے جائیں ان خیالات کا اظہار بی این پی کے مرکزی ڈپٹی آرگنائزر ڈاکٹر جہانیزیب جمالدینی مرکزی میڈیا آرگنائزر آغا حسن بلوچ ایڈووکیٹ سابق رکن قومی اسمبلی میر عبدالرؤف مینگل سابق رکن صوبائی اسمبلی ضلعی آرگنائزر، بی ایس او کے مرکزی آرگنائزر جاویدبلوچ منیر جالب بلوچ اور موسی بلوچ نے حامد میر اور بی این پی کے رہنماؤں پر قاتلانہ حملے اور کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف کوئٹہ پریس کلب کے منعقدہ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے کیا مظاہرین نے بینزر اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر نعرے درج تھے مظاہرین سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بلوچستان میں مسخ شدہ لاشوں کے ملنے لوگوں کو لا پتہ کرنے اور جاری ظلم و جبر کیخلاف عوام سراپا احتجاج رہتے تھے جس پر انہیں نشانہ بنایا جاتا تھا اب تو پاکستان کے کسی بھی کونے میں حق کی آواز بلند کرنے والے کو کسی صورت بھی برداشت نہیں کیاجاتا اور اسے راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جاتی ہے مقررین نے کہا کہ جس کی واضح مثال حامد میر پر قاتلانہ حملہ ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے انہیں بلوچستان سے ملنے والی مسخ شدہ لاشوں اجتماعی قبر اور نوجوانوں کو لا پتہ کرنے سمیت اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے احتجاج کرنے والوں کی آواز کو دنیا کے سامنے لانے کی پاداش میں کیا گیا ہے انہوں نے کہا کہ جس طرح بلوچستان کی معصوم بچیوں نے ساڑھے تین ہزار کلو میٹر کا سفر پیدل طے کر کے اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے حکام بالاکی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن حکمرانوں نے کوئی توجہ نہیں دی مقررین نے کہا کہ بلوچستان بھر میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ جاری ہے حامد میر پر حملہ بہت غلط اقدام ہے جس کے بیانک نتائج سامنے آئے گے کیونکہ واقع کے پوری دنیا میں ہمارے ملک کی جگ ہنسائی ہو رہی ہے حالانکہ حامد میر اور انسانیت اور صحافیوں کو علمبردار ہے اس موقع پر صحافی برادری کی صفوں میں اتحاد و یکجہتی ہو چاہیے اگر ہم اپنی صفوں میں دراڑ پیدا کی تو پھر ایک ایک کی باری آئیگی مقررین کا کہنا تھا کہ حکومت وقت کا فرض ہے کہ وہ صحافیوں کو در پیش مسائل اور مشکلات کا حل دلائے کیونکہ صحافی اپنے فرائض کی ادائیگی احسن طریقے سے کرتے ہیں اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبورہے صحافیوں نے ہمیشہ بلوچستان میں جاری ظلم و جبر اور مظلومیت کی آواز کو عوام کے سامنے بلند کیا ہے انسانی حقوق کی پامالی کی جا رہی ہے سیاسی کارکنوں نے اغواء کاری ان کی مسخ شدہ لاشوں کا ملنا جاری ہے بار آور قوتیں ہمیشہ زور زبردستی سے صحافیوں اور عوام کو راہ حق سے ہٹانے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ حامد میر نے میڈیا کے ذریعے بلوچستان کے ہزاروں لا پتہ افراد مسخ شدہ لاشوں اور اجتماعی قبروں کے ملنے کے سلسلے کے حوالے سے پوری دنیا میں آواز بلند کی لیکن حکمرانوں ان مسائل پر توجہ نہیں دی آج قوم پرستوں کی نام نہاد حکومت موجود ہے جسے وڈھ میں نو ماہ سے راشن کی بندش دکھائی نہیں دیتی حکمرانی کے نشے معاہدات کر کے اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ کسی بھی مسئلہ کو موت اور بندوق سے حل نہیں کیا جا سکتا اقوام متحدہ اور انسانی حقوق علمبردار اداروں کو بلوچستان میں ہونے والے ظلم و جبر کا نوٹس لینا چاہیے مقررین نے کہا کہ ہر موقع پر بلوچستان سمیت پاکستان کے مختلف علاقوں میں ظلم و زیادتیوں کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے اگر کوئی سامنے لانے کی کوشش کرتا ہے تو اس پر دباؤ ڈالا جاتا ہے انہوں نے کہا کہ میڈیا میں آنے والے بیانات سے یہی بات ظاہر ہوتی ہے کہ مذکورہ کمیشن کا حال بھی حمودالرحمن کمیشن کی ہونا ہے مقررین نے کہا کہ حامد میر پر حملہ انسانیت کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے اس حملے کے بعد اداروں نے جو کھیل کھیلا ہے اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی جسطرح مشرف آمریت کے خلاف ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد نے اپنا کردار ادا کیا اسطرح آج تمام شہری تنظمیں صحافیوں کے خلاف ہیں کیونکہ کہ اداروں نے ہمیشہ قبائل قومیت صحافیوں میں تفرقہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ہم سب اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کر کے ان سازشوں کو ناکام بنا سکتے ہیں مقررین نے کہا کہ بی این پی اور بی ایس او حامد میر پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے صحافی برادری سے اظہار یکجہتی کرتی ہے اور صحافیوں کے شانہ بشانہ کھڑی ہے حکومت فوری طور پر حملہ آوروں کو گرفتار کر کے قرار واقعی سزا دے مظاہرے کے اختتام پر حامد میر کی جلد صحت یابی کیلئے دعا کی گئی اور مظاہرین اپنے مطالبات کے حق میں نعرے بازی کرتے ہوئے پر امن طور پر منتشر ہو گئے۔ دریں اثناء بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی کال پر نوکنڈی میں پارٹی رہنماؤ نے ممتاز صحافی حامد میر اور پارٹی رہنما میر نذیر احمد بلوچ پر قاتلانہ حملے کیخلاف ریلی نکالی جو مختلف شاہراؤں سے ہوتی ہوئی مین چوک پر اختتام پذیر ہوئی اس موقع پر مظاہرین سے بی این پی ضلع چاغی کے جوائنٹ سیکرٹری یوسف ساسولی اور قاضی میر احمد بلوچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایک سوچی سمھجھی سازش کے تحت پارٹی ورکروں اور صحافیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے تا کہ حق کی آواز کو دیاجائے لیکن بی این پی ایسے مذموم ہتھکنڈوں سے کبھی مرعوب نہیں ہو گی، بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام بی این پی کے رہنماء نذیر بلوچ اور سینئر صحافی حامد میر پر حملے کیخلاف دالبندین پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرے سے بی این پی کے جنرل سیکرٹری منظور حسن زئی نور احمد بلوچ قادر ریکی ملک محمد ابراہیم محمد اقبال عبدالصمد بلوچ صحافی فیض اللہ عابد نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان میں اکثر صحافیوں کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے جس کی ہم بھر پور مذمت کرتے ہیں بی این پی کے کارکنوں نے کہا کہ بلوچستان کو بارود کا ڈھیر بنا دیا ہے آئے روز بلوچ نوجوانوں کو اغواء کیا جارہا ہے اور بعد میں انہیں شہید کر کے ان کے چہرے کو مسخ کرتے ہیں اوراس ظلم کیخلاف بی این پی ہر وقت اپنی آواز بلند کرے گی۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام سینئر صحافی حامد میر اور پارٹی رہنماء نذیر بلوچ پر قاتلانہ حملے کے خلاف میر گل خان نصیر چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرین نے شدید نعرے بازی کی مظاہرے سے بی این پی کے ضلعی آرگنائزر میر خورشید جمالدینی نذیر بولچ نوشکی یونین آف جرنلسٹس کے آرگنائزر غلام رسول جمالدینی حمید بلوچ مالک عدیل عتیق بلوچ ماسٹر رشید مینگل برہمش بلوچ اور عبدالکریم مینگل نے خطاب کیا مقررین نے سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملہ کو آزادی صحافت پر حملہ قرار دیا۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے زیر اہتمام معروف ٹی وی اینکر پرسن و سینئر صحافی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ کے خلاف وڈھ میں اہتجاجی ریلی نکالی گئی جو کہ مختلف شاہراہوں سے ہوتی ہوئی وڈھ پریس کلب کے سامنے جلوس کی شکل اختیار کی ۔ مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھارکھے تھے جس پر ’’صحافیوں کو تحفظ دو حامد میر کے پر قاتلانہ حملہ آوروں کو گرفتار کرو‘‘ کے جیسے نعرے درج تھے مظاہرین نے پارٹی کے رہنما میر عبداللہ مینگل اور تحصیل میونسپل کمیٹی کے ممبر فضل الرحمٰن ایڈووکیٹ نے خطاب کرتے ہوئے کہا حامد میر کو اس لئے نشانہ بنایا گیا ہے کیونکہ وہ بلوچوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر لب کشائی کررہے تھے اور مظلوموں کی ہم آواز تھے ۔ مظاہرین نے خفیہ اداروں کے خلاف شدید نعرہ بازی کرتے ہوئے صحافیوں کو تحفظ دینے اورحامد میر پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کو فوری پر گرفتار کرنے کا مطالبہ کیا۔