|

وقتِ اشاعت :   April 22 – 2014

xکوئٹہ : سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے اور صحافیوں کو تسلسل کے ساتھ ملنے والی دھمکیوں کے خلاف بلوچستان اسمبلی کے اجلاس سے صحافیوں کا واک آؤٹ ،بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے اسمبلی کے باہر احتجاجی مظاہرہ حملہ آوروں کی گرفتاری اور صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا گیا حکومتی اور حزب اختلاف کے ارکان کی یقین دہانی پر صحافیوں نے احتجاج ختم کردیا سینئر صحافی حامیر پر گزشتہ دنوں ہونے والے قاتلانہ حملے اور صحافیوں کے تسلسل کے ساتھ ملنے والی دھمکیوں کے خلاف بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کی اپیل پر منگل کو صحافی برادری بازؤں پر سیاہ پٹیاں باندھے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کی کوریج کیلئے پہنچی اسپیکر جان جمالی کی صدارت میں بلوچستان صوبائی اسمبلی کا اجلاس شروع ہوا تو بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید کی قیادت میں صحافیوں نے پریس گیلری سے واک آؤٹ کیا اور بلوچستان اسمبلی کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا مظاہرین نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھ رکھی تھیں اور ہاتھوں میں بینرز اور پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر مختلف نعرے درج تھے مظاہرین نے سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے اور سینئر صحافی افتخار احمد سمیت دیگر صحافیوں کو ملنے والی دھمکیوں کی مذمت کی اس موقع پر بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید ،کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن ،سینئر صحافیوں شہزادہ ذوالفقار ،سلیم شاہد نے کہا کہ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک میں آزادی صحافت کا گلہ گھونٹنے کی سازشیں کی جارہی ہیں ہمارا روز اول سے ایک ہی مطالبہ رہا ہے کہ صحافیوں کو آزادی کے ساتھ ان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریاں نبھانے دی جائیں لیکن مختلف قوتوں کی جانب سے ہمیں ہمیشہ دبانے ہراساں کرنے کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں بلوچستان میں ہمارے تیس سے زائد صحافیوں نے پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی انجام دہی کے دوران اپنی جانوں کے نذرانے دیئے مجموعی طور پر ملک بھر میں ایک سو سے زائد صحافیوں کا نشانہ بنایا جاچکا ہے ہم نے اس سے قبل بھی مطالبہ کیا کہ آزادی صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس اقدامات کئے جائیں بلوچستان میں جوڈیشل کمیشن کی تشکیل اور قاتلوں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے اور جاں بحق ہونے والے صحافیوں کے لواحقین کو مالی معاوضوں کی ادائیگی کی یقین دہانی کرائی گئی لیکن اس پر بھی مکمل عملدرآمد نہیں ہوا ہم چاہتے ہیں کہ نہ صرف بلوچستان میں بلکہ پورے ملک میں صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے بلوچستان اسمبلی میں موجود جماعتیں اپنا مؤثر وعملی کردار ادا کریں کیونکہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنائے بغیر امن و استحکام ممکن نہیں اس موقع پر صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال ،صوبائی وزیر زراعت سردار اسلم بزنجو ،نیشنل پارٹی کی خاتون رکن اسمبلی ڈاکٹر شمع اسحق حزب اختلاف کے رکن و جمعیت علماء4 اسلام کے رہنما سردار عبدالرحمن کھیتران نے باہر آکر صحافیوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا اظہار کیا بلکہ سینئر صحافی حامد میر پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی مذمت کی صوبائی وزیر اطلاعات عبدالرحیم زیارتوال نے کہا کہ ہم تمام سیاسی جمہوری جماعتیں ہیں اور آزادی صحافت پر یقین رکھتی ہیں بلکہ ہم آئین پاکستان کے تحت تحریر و تقریر کے تحت ہر شہری کو میسر حق آزادی پر یقین رکھتی ہیں اور اس کیلئے کوشاں ہیں ملک میں جس طرح کی صورتحال ہے اس میں ہم سب کو یہ ماننا ہوگا کہ یہ شورش زدہ خطہ ہے جہاں ہم رہ رہے ہیں اس میں صحافی سمیت کوئی بھی محفوظ نہیں تاہم حالات کی بہتری اور قیام امن کیلئے ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہوگا اسمبلی میں نہ صرف مذمتی قرار داد لائی جارہی ہے بلکہ ہم وفاق سے یہ مطالبہ بھی کریں گے وہ صحافیوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کے ساتھ حامد میر پر حملے میں ملوث ملزمان کی گرفتاری کو یقینی بنانے کیلئے ٹھوس عملی اقدامات کرے کسی کے نکتہ نظر اور رائے سے اختلاف ہر ایک کا حق ہے لیکن اختلاف رائے پر کسی کی جان لینے کے عمل کی حمایت نہیں کرتے اس موقع پر جمعیت علماء4 اسلام سے تعلق رکھنے والے رکن اسمبلی سردار عبدالرحمن کھیتران نے حامد میر پر قاتلانہ حملے کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں اس سے قبل بھی مختلف سینئر صحافیوں پر حملے ہوتے رہے ہیں اور انہیں ہراساں کیا جاتا رہا ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے ایک گذارش میڈیا سے بھی کریں گے کہ تحقیقات سے قبل کسی ادارے کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں اور خاص طور پر اپنے اس دفاعی ادارے پر جو ہمارا اپنا ہے کمیشن بن چکا ہے اس کی رپورٹ آئے گی باقی اگر کسی بھی ادارے کا سربراہ یا کوئی بھی فرد اس ملوث پایا گیا تو اس کو ضرور ملنی چاہیئے لیکن قبل از وقت کسی پر الزام عائد کرنا درست نہیں ہمسایہ ملک نے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہماری حفاظت پر مامور اداروں کی تضیحک کی جو قابل مذمت اور قابل افسوس ہے ہم اپوزیشن کی جانب سے صحافیوں کو ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کراتے ہیں ڈاکٹرشمع اسحق بلوچ نے واقعہ کی مذمت کی اور کہا کہ یہ انتہائی سنگین نوعیت کا معاملہ ہے اور حامد میر نے ہمیشہ مظلوموں کی آواز و قوت بنے جب وہ بلوچستان آئے تو انہیں یہاں بھی دھمکیاں دی گئیں صحافت چوتھا نہیں بلکہ پہلا ستون ہے حامد میر پر حملے کو میں پوری صحافت پر حملہ سمجھتی ہوں اس کی نہ صرف تحقیقات ہونی چاہیئے بلکہ اس میں جو کوئی بھی ملوث ہے اس کو کیفر کردار تک پہنچاکر عبرت ناک سزا دیجائے تاکہ آئندہ کوئی بھی صحافی پر حملہ آور ہونے کی جرات نہ کرسکے