|

وقتِ اشاعت :   April 24 – 2014

وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے انکشاف کیا ہے کہ بعض دینی مدارس بیرونی ممالک سے امداد لے رہے ہیں یہ وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے ان الزامات کی تصدیق ہے کہ بعض مدارس بیرونی ممالک سے امداد لے رہے ہیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں دینی مدارس آناً فاناً تعمیر ہوگئے اور ان میں ہزاروں طلباء کو مفت دینی تعلیم ‘ کھانا ‘ کپڑے‘ کتابیں اور رہائش مفت فراہم کی جانے لگی ۔ ایران اور افغانستان میں سیاسی تبدیلیوں سے قبل بھی ہمارے ملک کے بعض حصوں میں مدارس تھے لیکن وہ محدود پیمانے پر مقامی طلباء کو تعلیم دیتے تھے ۔ محلہ یا علاقے میں مسجد کا ملا معلم کا کام سرا نجام دیتا تھا ۔ا ن کو صرف کھانامحلہ یا علاقے کے لوگ فراہم کرتے تھے ۔ باقی اخراجات طلباء یا ان کے والدین برداشت کرتے تھے ۔ مگر افغانستان میں بادشاہت کے خاتمے اور روشن خیال لوگوں کی حکومت کے قیام کے بعد ہی سعودی عرب اور امریکہ نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ مذہب کو استعمال کرتے ہوئے اشتراکیت کا راستہ پاکستان میں روکیں گے۔ جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو ا س مہم میں شدت لائی گئی ۔ دوسری جانب شاہ ایران کا تختہ الٹ دیا گیا اور اسلامی انقلاب نے پنجے گاڑھ دئیے ۔ یہ پاکستان کی اشرافیہ کے لئے دوسرا خطرہ تھا جہاں پر مظلوم اور ناچار مسلمانوں کی حکومت قائم ہوئی اور اس نے بھی شیعہ انقلاب دنیا بھر میں پھیلانے کی کوشش کی ان میں سرفہرست پاکستان اور سعودی عرب تھے۔ ان دونوں انقلابات جو پاکستان کے دروازے پر وقوع پذیر ہوئے پاکستان کی سیاست کا رخ پھیر دیا ۔ مدارس قائم ہوگئے بلکہ بعض مدارس کو جہادی فیکٹریوں کا نام دیا گیا ۔ یہاں کے مجاہد افغانستان اور کشمیر میں جہاد کرنے چلے گئے ۔ ظاہر ہے ان کو ریاست پاکستان کی پشت پناہی حاصل تھی جب روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو جنرل ضیاء الحق اور اس کے جنرل اسٹاف نے مرحوم میر غوث بخش بزنجو کو مشورے کے لئے طلب کیا ۔ ان کی رائے تھی کہ اگر حکومت اسلحہ اور پیسہ دے کر ان جاہلوں کو افغانستان جنگ کے لئے بھیجے گی تو ایک وقت آئے گا جب یہی جاہل عناصر روپیہ پیسہ نہ ملنے کی صورت میں بندوقوں کا رخ اسلام آباد کی طرف کریں گے۔ آج ثابت ہوگیا کہ وہی کچھ ہوا جس کی پیشگوئی بزنجو صاحب نے کی تھی ۔ ہمارے سماج کا ایک توازن تھا جو صدیوں سے رائج تھا وہ خراب ہوگیا پولیٹیکل ایجنٹ ‘ ملک اور دوسرے با اثر قبائلیوں کا اثر ورسوخ ختم کرکے جاہل جہادی کمانڈروں کو پر امن سماج پر مسلط کیا گیاتاکہ افغانستان کو پیدل فوجیوں کے ذریعے ختم کیا جائے ۔ آج کے طالبان سابق جہادی کمانڈروں کے وارث ہیں ۔ انہوں نے اپنی متوازی حکومت اور متوازی ریاست قائم کی ہوئی ہے اور بعض علاقوں پرحکمرانی کررہے ہیں۔ اس کی وجہ طالبان کو فنڈ‘ اسلحہ اور جہادیوں کی فراوانی ہے ۔ ان ہی مدارس سے ان کو جہادی اور طالبان مل رہے ہیں جو ریاست پاکستان کو تسلیم نہیں کرتے اور پاکستان کی جگہ اسلامی امارات بنانا چاہتے ہیں ۔ لہذا ان تمام مدارس میں اصلاحات لائی جائیں ان میں دینی علوم کے علاوہ دوسرے تمام مضامین پڑھائے جائیں ۔ چند علمائے دین کی یہ حتمی رائے ہے کہ چھوٹے چھوٹے بچوں کو دینی تعلیم نہ دی جائے کیونکہ وہ اپنی معاملات کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ بچوں کو دینی تعلیم میٹرک کے بعد دی جائے تاکہ وہ دینی مسائل کو سمجھ سکیں ۔ لہذا ابتدائی تعلیم تمام اسکولوں اورمدارس میں یکساں طورپر دی جائے تاکہ بچے سماج کے لئے مفید شہری بن سکیں ۔ یہ بات سختی سے عمل ہونا چائیے کہ بیرونی امداد وصول کرنے والے مدارس کے منتظمین کو برطرف کیاجائے اور ان مدارس کو حکومت کی تحویل میں دیا جائے ۔ بہر حال یہ ریاست کا فرض ہے کہ دینی مدارس کو جہادی فیکٹریوں میں تبدیل نہ ہونے دے ۔ ان منتظمین کے خلاف کارروائی کی جائے جو مدارس کے احاطے میں اسلحہ اور گولہ بارود رکھتے ہیں ۔