|

وقتِ اشاعت :   July 6 – 2014

یہ بات ہے جنوری دوہزار نو کی۔جب آٹھ جنوری کو سری لنکا کے اخبار’سنڈے لیڈر‘ سے وابستہ نامور صحافی لسانتھا abid mirوکرماتنگ کو مقتدر قوتوں سے متعلق اُن کے واضح مؤقف اورآزادیِ اظہار کے باعث دن دہاڑے گولیاں مار کرقتل کردیا گیا۔ بی بی سی نے ان کے حوالے سے ایک لیڈ اسٹوری شایع کی۔ جس میں بتایا گیاکہ انھوں نے اپنی موت سے چند دن قبل ایک اداریہ لکھا تھا جس میں انہوں نے پیشگوئی کی تھی کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔ یہ اداریہ ان کے اخبار نے تین روز قبل شائع کیا جس میں لسانتھا نے بڑی تفصیل سے اپنے نظریات، اپنے اخبار کا موقف، اپنے پیشے سے وابستہ چیلنجز اور اپنے ملک کی صورتِ حال پر تفصیلی بحث کی۔ اس اداریے میں انہوں نے سری لنکا کی سیاسی سمت اور تامل ٹائیگرز پر حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں عوام، خصوصاً تامل طبقے کی محرومیوں کا ذکر کیا ۔ اس طویل ایڈیٹوریل میں جسے برطانوی اخبار گارڈین نے قدرے اختصار کے ساتھ شائع کیا ، لسانتھا نے لکھا کہ انہیں امید ہے کہ ان کا لہو آزادی کی شکست نہیں کہلائے گا بلکہ ایک نئے جذبے کو جنم دے گا۔انہوں نے یہ بھی لکھا :’میں چاہتا ہوں میرا قاتل جان لے کہ میں بزدل نہیں ہوں۔۔۔ انسانوں کو ڈھال بنا کر اس کی آڑ میں چھپنے والا بزدل۔۔۔ جو ہزاروں افراد کو موت کے منہ میں دھکیل دیتا ہے۔‘ اس بے باک اور بہادر صحافی نے ملک میں اپنے پیشے کو درپیش مشکلات کے حوالے سے لکھا کہ،’ دنیا میں صرف ایک ہی پیشہ ایسا ہے جو اپنے عاملان سے زندگی قربان کر دینے کو کہتا ہے اور یہ پیشہ فوج کا ہے۔لیکن سری لنکا میں صحافت بھی ایک ایسا ہی پیشہ ہے جو اپنے راستے پر چلنے والوں سے جان کا نذرانہ طلب کرتا ہے۔‘ لسانتھا نے مزیدلکھا کہ ’سری لنکا میں تبدیلی آئی ہے مگر اچھائی، برائی میں تبدیل ہوگئی ہے۔ ملک میں خانہ جنگی ہے اور یہ جنگ وہ لڑ رہے ہیں جن میں خون کی ایسی ہوس ہے جس کی کوئی حد نہیں ہے۔ دہشت گردی کا دور دورہ ہے۔ قتل وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے ریاست آزادیوں کا خون کرتی ہے۔ آج صحافی سہہ رہے ہیں، کل جج جھیل رہے ہوں گے۔‘ لسانتھا کے مطابق انھیں اس بے باکی سے کام کرنے سے دوستوں نے بھی منع کیا اور سیاست دانوں نے بھی سمجھایا۔ انہیں وزارتوں کی پیشکش بھی ہوئی اور سری لنکا سے باہر آرام دہ رہائش سے بھی للچایا گیا مگران کے بقول، ’میں اس پیشہ سے وابستہ ہوں جو اب بھی ان سب باتوں سے مبرا ہے۔ میرے اندر ضمیر کی ایک آواز ہے۔‘ان کے مطابق ان کے اخبار نے جو دیکھا وہ لکھا۔ ’ہم نے وہ آواز اٹھائی جو بہت سے کانوں کو بھاتی نہیں تھی ،ہم نے کہا کہ علیحدگی پسند دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دینا چاہیے لیکن دہشت گردی کی بنیادی وجہ تلاش کرنا اس سے بھی زیادہ اہم ہے۔ ہم نے دہشت گردی کے خلاف ریاستی جنگ کے بارے میں بھی لکھا اور بتایا کہ سری لنکا روئے زمین پر وہ واحد ملک ہے جہاں اپنے ہی شہریوں پر بم برسائے جاتے ہیں(اس معاملے میں لسانتھا کو اپنے گردوپیش کے ممالک پہ بھی ایک نگاہ ڈال لینی چاہیے تھی) چنانچہ ہمیں غدار کہا گیا ۔اگر غداری اسے ہی کہتے ہیں تو ہمیں فخر ہے کہ ہم غدار ہیں۔‘ اپنے اداریے میں انہوں نے ملک کے صدر راج پکشئے کو بھی مخاطب کیا جن سے ان کی صاحب سلامت تھی۔ انہوں نے اس زمانے کی یاد آوری کی جب وہ، موجودہ صدر( جو اس وقت صدر نہیں تھے) اور چند دیگر دوست مل کر سیاسی موضوعات پر بات چیت کیا کرتے تھے۔ انہوں نے موجودہ صدر کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا: ’تمہیں میرا قتل کبھی نہیں بھولے گا۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں بھی میری موت کا افسوس ہوگا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کچھ نہیں کر سکو گے۔ تم بس میرے قاتلوں کو بچاؤ گے۔‘ اداریے میں لکھا گیا کہ’ سنڈے لیڈر‘ اپنی جنگ جاری رکھے گا اور اس اخبار کو اتنی آسانی سے موت کی نیند نہیں سلایا جا سکے گا کیونکہ لسانتھا کے بقول، ’میری موت مختلف قوتوں کو اکٹھا کر دے گی جس سے مادرِ وطن میں انسانی آزادیوں کا نیا سویرا طلوع ہوگا۔‘ لسانتھا سے کئی جگہ پر اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن جو کچھ اس نے کیا اور اس کے عوض جو کچھ اس کے ساتھ ہوا ، وہ ہمارے ہاں کی کئی کہانیوں سے ملتا جلتا ہے۔ پاکستان کے مین اسٹریم میڈیا میں بلوچ اور بلوچستان کی مستند آواز سمجھے جانے والے جرأت مند صحافی،اور حال ہی میں طاقت ور قوتوں کی جانب سے ایسے ہی قاتلانہ حملے میں گھائل ہونے والے حامد میر کی کہانی ،لسانتھا سے چنداں مختلف نہیں۔لسانتھا کا انداز اور مؤقف اپنے ملک میں وہی تھا، جو پاکستان میں محکوم قوتوں کے لیے حامد میر اور اس قبیل کے صحافیوں کا رہا ہے۔مثلاً اس نے کہا’ ہم نے لکھاسری لنکا روئے زمین پر وہ واحد ملک ہے جہاں اپنے ہی شہریوں پر بم برسائے جاتے ہیں چنانچہ ہمیں غدار کہا گیا ،اگر غداری اسے ہی کہتے ہیں تو ہمیں فخر ہے کہ ہم غدار ہیں۔‘ یہی بات پاکستان میں اگر کوئی کہے تو اس کے لیے بھی وہی سر ٹیفکیٹ جاری کر دیا جاتا ہے جس کا سر ی لنکا میں رواج ہے۔ ملک کے صدر، جو اس کا دوست تھاکو مخاطب کر کے اس نے لکھا،’تمہیں میرا قتل کبھی نہیں بھولے گا، مجھے معلوم ہے کہ تمہیں بھی میری موت کا افسوس ہوگا لیکن میں یہ بھی جانتا ہوں کہ تم کچھ نہیں کر سکو گے، تم بس میرے قاتلوں کو بچاؤ گے۔‘ پاکستان اوربلوچستان میں بھی ان دنوں حکومت انھی کی ہے جو بظاہر بلوچوں کے دوست ہیں، لیکن ہم جانتے ہیں کہ اگر خدانخواستہ حامد میر جیسے بلوچ دوست کوکچھ ہو جاتا ہے تو وہ کچھ نہیں کر سکیں گے ماسوائے قاتلوں کو بچانے کے، ان کے ساتھ شراکتِ اقتدار کرنے کے یا زیادہ سے زیادہ اسمبلی میں ایک قرادار پاس کر نے کے۔۔۔جو وہ آزادیِ اظہار کے نام پہ اکثر کرتے رہے ہیں۔ موجودہ سری لنکا میں حالات اب اس قدر ابتر نہیں رہے، جتنے کہ پاکستان میں ہیں۔ علیحدگی پسند رحجانات سے لے کر، سماجی اتھل پتھل کہیں زیادہ ہے۔ اور انسانی و شخصی آزادیوں پہ ریاست کی جانب سے دباؤ بھی اتنا ہی زیادہ ہے۔دھونس، دھمکی اور تشدد سے ہوتی ہوئی بات اب قتل تک آ پہنچی ہے۔ وہ جو لسانتھا نے کہا تھا کہ،’قتل وہ ہتھیار ہے جس کے ذریعے ریاست آزادیوں کا خون کرتی ہے‘بعینہ یہی کچھ آج پاکستان میں ہو رہا ہے۔کسی زمانے میں اہلِ قلم تعزیر پہ تھے، ابھی کل تک سیاسی کارکن نشانے پر تھے، پھر وکلا اور جج نشانہ بنے، آج صحافیوں کی باری ہے۔کل کوئی اور طبقہ ہوگا۔طاقت، اختلاف برداشت نہیں کرتی، یہ مطلق اجارہ داری چاہتی ہے۔ اس لیے ہر اختلافی آواز کو دبانے کی کوشش کی جائے گی۔لیکن سب سے بڑھ کر لسانتھا کی آخری بات ہم سب کے لیے قوت اور حوصلے کا باعث ہے کہ ایک فرد کو دبانے سے سچائی کی آواز کو نہیں دبایا جا سکتا ۔ اس نے لکھا تھاکہ: ’میری موت مختلف قوتوں کو اکٹھا کر دے گی جس سے مادرِ وطن میں انسانی آزادیوں کا نیا سویرا طلوع ہوگا۔‘ پاکستان میں سماجی انصاف کے لیے برسر پیکار قوتوں کوبھی پورا یقین ہے کہ ہم چراغِ آخرِ شب ہیں،ہمارے بعد اندھیرا نہیں اجالا ہے،ہمارے لہو کے عوض ایک روز اس دھرتی پر بھی انسانی آزادیوں کا نیا سویرا ضرور طلوع ہوگا۔اس لیے زخم زخم بلوچستان سے قلم کے اس گھائل سپاہی کے لیے لاکھوں دعائیں گئی ہیں۔ حالانکہ ہم نہیں بھولے کہ انھی طاقت ور ریاستی قوتوں کے خوف سے جان بچا کر امریکہ میں سیاسی پناہ لینے والے ایک نوجوان بلوچ صحافی کو انھوں نے ’بھگوڑا‘ کہا تھا۔لیکن بہرحال بالخصوص بلوچستان کے معاملے پہ خود انھوں نے جس ’بلوچ بہادری‘کا مظاہرہ کیا ہے، اس پہ انھیں خراج پیش نہ کرنا کم ظرفی ہی ہوگی۔ سو، لسانتھا کا یہ جملہ تو حق اور سچ کی جنگ لڑنے والے ہر صحافی، ہر فرد کو اپنی پیشانی پر لکھ لینا چاہیے کہ۔۔۔’میرا قاتل جان لے کہ میں بزدل نہیں ہوں!‘ عوامی نصب العین سے وابستہ علم اور قلم کاہرسپاہی جب بے خوفی کی اس سطح پر پہنچ جائے تو پھر راہ کیسی ہی کٹھن کیوں نہ ہو، منزل کے حصول کا احساس تمام ترمصائب اور تکالیف پہ حاوی رہتا ہے۔