|

وقتِ اشاعت :   July 8 – 2014

کوئٹہ: خود ساختہ جلا وطن بلوچ قوم پرست رہنما میر حربیار مری نے کہا ہے کہ اگر قبائلی نوابوں اور سرداروں کے اختیارات علیحدگی تحریک چلانے والے قوم پرستوں کے حوالے نہ کیے گئے تو آزاد بلوچستان کو انگولا اور شمالی کوریا جیسے مسائل کا سامنا ہو گا۔ انہوں نے لندن سے یہاں صحافیوں کو بھیجے گئے ایک بیان میں مری قبیلے کے نواب بننے کی بھر پور کوششیں کرنے والے اپنے دو بھائیوں جان گیز اور مہران کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ‘نوابوں، قبائلی سرداروں اور قبائلی عمائدین کی تقرریاں پسماندگی اور اُس بلوچ مخالف نظام کا حصہ ہیں، جسے بلوچستان میں برطانوی حکمرانوں کے نمائندے نے متعارف کرایا تھا۔ حربیار کے مطابق یہ نظام شروع سے ہی بلوچ تحریکِ آزادی اور بلوچ عوام کے مفادات کے منافی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچ قوم پرست رہنماؤں اور نوجوانوں کو حق اور مینڈیٹ حاصل ہے کہ وہ بلوچستان سے متعلق فیصلے کریں کیونکہ یہی لوگ ‘آزادی کی کوششوں میں اپنی جانیں قربان کرتے آئے ہیں’۔ ‘میرے بھائیوں جان گیز اور مراان سمیت مری قبیلے کے نواب اور سردار تحریک آزادی میں اپنا حصہ ڈالنے کے بجائے پارلیمنٹ کو فوقیت دینے والے بلوچستان نیشنل پارٹی اور نیشنل پارٹی کے ارکان اسمبلی کے راستے پر چل رہے ہیں’۔ حربیار کا مزید کہنا تھا کہ مینگل قبیلے کے سردار بلوچ عوام کے حقوق کے لیے قربانیاں دینے کے بجائے اپنا اثر و رسوخ قائم رکھنے کے لیے سیاست کر رہے ہیں۔ ‘کچھ لوگوں کو بطور نواب اور قبائلی سردار حکمرانی کی اجازت دینے والی قومیں ہمیشہ پسماندہ اور شورش کا شکار رہتی ہیں۔ دوسری جانب تبدیلی قبول کرنے والی قومیں مثلاً ناروے اور سوئیڈن ترقی یافتہ اور پھلتی پھولتی ہیں’۔ حربیار کے مطابق، ان کے مرحوم والد نواب خیر بخش مری نے بلوچ لوگوں کے روشن اور تابناک مستقبل کے لیے ایک مکتبہ فکر کو اپنایا اور پھر جدو جہد کرتے ہوئے تکلیفیں اور مشکلات برداشت کیں۔ ‘نواب خیر بخش مری کے وارث ان کے بچے اور قبیلہ ہی نہیں بلکہ تمام بلوچ عوام ہیں’۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ بلوچ عوام اگر اپنی شناخت بچانا اور مہذب معاشروں میں شمار ہونا چاہتے ہیں تو انہیں نواب یا قبائلی رہنماؤں کے بجائے پختہ سوچ رکھنے والے لیڈروں کی ضرورت ہے۔ ‘ہم قبائلی نظام کے مخالف نہیں بلکہ ہم نواب اور سرداری نظام کے خلاف ہیں’۔