|

وقتِ اشاعت :   July 22 – 2014

بعض پارٹیاں اور سیاسی رہنماء موجودہ جمہوری نظام کی بساط لپیٹنے کی کوشش کررہے ہیں ۔ عمران خان کا ملین مارچ اور ڈاکٹر طاہر القادری کاانقلاب دونوں کا مقصد ایک ہے کہ مسلم لیگ ن کی حکومت کو وقت سے پہلے الیکشن کرانے پر مجبور کیاجائے ۔ یہ ایک خطر ناک کھیل ہے ۔خصوصاً موجودہ صورت حال کے تناظر میں ملک ایک ایسے بحران سے گزر رہاہے جو 1971ء کے بحران سے زیادہ خطر ناک ہے۔ پورے خطے میں عدم استحکام ہے ۔ جنگیں لڑی جارہی ہیں ۔ دنیا بھر کی قومیں اپنی اپنی پراکسی استعمال کررہی ہیں اور اپنے ناجائز مفادات کا تحفظ کررہی ہیں ۔ افغان جنگ کی وجہ سے پاکستان کے تعلقات افغانستان سے ٹھیک نہیں ہیں ۔ بد گمانیاں بہت ہیں ا ور وہ کسی بھی وقت خطر ناک صورت حال اختیار کرسکتی ہیں ۔ نئے صدر کے انتخاب کے بعد تعلقات میں کشیدگی میں اضافہ کا امکان ہے ۔ پاکستان کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازعہ نہیں ہے ۔ اور سرحدیں بین الاقوامی طورپر تسلیم شدہ ہیں اور اقوام متحدہ کا بھی موقف یہی ہے ۔ مگر افغانستان کا مؤقف یہ ہے کہ معاہدہ گنڈامک غیر قانونی ہے ۔ یہ معاہدہ دو برابر ممالک کے درمیان نہیں ۔ برطانیہ نے ایک سپر پاور کی حیثیت سے یہ معاہدہ افغانستان پر مسلط کیا تھا ۔ لہذا کابل کے حکمران اس کو تسلیم نہیں کرتے ۔ دوسری جانب بھارت سے ہم لوگ تین جنگیں لڑ چکے ہیں ۔ ہم نے بنگلہ دیش گنوا دیا ۔ اب بھی بھارت کے ساتھ پاکستان کے تعلقات معمول کے مطابق نہیں ہیں ۔ آئے دن بھارتی افواج سرحدی علاقوں اور لائن آف کنٹرول پر گولہ باری کرتی رہتی ہیں ۔اور فوجیوں کو اہداف بناتی رہتی ہیں ۔لہذا بھارت کے ساتھ تعلقات میں مزید کشیدگی کسی بھی وقت پیدا ہو سکتی ہے ۔ آج کل ایران کا رویہ معاندانہ ہے ۔تہران کا خیال ہے کہ پاکستان حالیہ دنوں میں سعودی عرب کے قریب تر ہوگیا ہے ۔ علاقائی معاملات میں سعودی پالیسی کے قریب تر ہے ۔ ایران کو غصہ ہے کہ پاکستان نے ایران پاکستان گیس پائپ لائن پر کام نہ صرف روک دیا بلکہ اس کو ہمیشہ کے لئے بند کردیا ۔ ایرانی غصے میں جوابی کارروائی کا ارادہ رکھتا ہے ۔ دسمبر میں مقررہ وقت گزرنے کے بعد ایران 80لاکھ ڈالر روزانہ پاکستان سے تاوان وصول کرے گا۔ امریکا اور ناٹو کے جنگی جہاز گوادر سے باہر کھڑے ہیں ان کی تعداد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پچاس سے زائد جنگی جہاز ہیں اور اس میں ایک آدھ طیارہ بردار جہاز بھی موجود ہیں ۔ سیکورٹی کی صورت حال انتہائی مخدوش ہے اور پاکستان چاروں طرف سے بحرانوں میں گھرا ہوا ہے ۔ حکمران ہیں کہ اپنی آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں صرف اپنے ذاتی اور تجارتی مفادات کا تحفظ کیے جارہے ہیں ملک کی سلامتی اور یک جہتی سے ان کو کوئی سروکار نہیں ۔ اسی تناظر میں بلوچستان کا منظر نامہ انتہائی خطر ناک دکھائی دے رہا ہے ۔ ظاہر ہے کہ ایران اور افغانستان اپنی جنگیں بلوچ سرزمین پر لڑ سکتی ہیں ۔ بلوچ سرزمین پر زیادہ تباہی کے آثار ہیں ویسے بھی پاکستانی حکمرانوں نے بلوچستان کو مکمل طورپر عدم استحکام کا شکار بنایا ہوا ہے جیسا کہ یہ پاکستان وفاق کا حصہ ہی نہیں ہے ۔ اس دوران دو نئے ایکٹر‘طاہرالقادری اور کپتان عمران خان کا ان تمام معاملا ت سے کوئی تعلق نہیں ۔ وہ اپنی ملین مارچ اور قادری صاحب انقلاب ایسے وقت برپا کرنا چاہتے ہیں کہ ملک کی سلامتی خطرے میں ہے ۔ ویسے بھی ان کے ایجنڈے میں سندھ اور بلوچستان کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ بلکہ وہ ان دونوں صوبوں کو پاکستان کا حصہ ہی نہیں سمجھتے ۔ بلوچ عوام کے لئے عمران خان کا ایجنڈا ذاتی مفاد اور وزارت عظمیٰ کی حصول کی خواہش کے علاوہ کچھ بھی نہیں ۔ طاہر القادری صاحب کا انقلاب مزید قتل و غارت گری کا پیش خیمہ ہے ۔ان دونوں صاحبان کے پلان میں صرف قتل و غارت نظر آتا ہے۔ دونوں حضرات حکومت کو نہیں گرا سکتے اور نہ ہی موجودہ لولی لنگڑی نظام کو ڈی ریل کرسکتے ہیں ۔ البتہ عوام الناس میں مزید مایوسیوں کا پیغام لا سلتے ہیں ۔ اس لولے لنگڑے جمہوری نظام میں بلوچ قوم کی تھوڑی بہت نمائندگی موجود ہے ، آمریت کی صورت میں یہ بھی نہیں ہوگی ۔