|

وقتِ اشاعت :   July 27 – 2014

پورے ملک میں لڑکیوں کی تعلیم زورشور سے جاری ہے ۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ڈاؤ یونی ورسٹی آف میڈیکل سائنس میں طالبات کی تعداد 87فیصد ہے ۔ لڑکے آج کل شور مچا رہے ہیں کہ ان کے لئے الگ میڈیکل کالج قائم کیاجائے ۔ لڑکے کہتے ہیں کہ ہم امتیازی سلوک کا شکار ہیں ۔ دوسری جانب مذہبی دہشت گردجن میں سے بعض کو سرکاری اہلکاروں کی حمایت حاصل ہے وہ بلوچستان اور کے پی کے میں لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف محاذ کھولے ہوئے ہیں ۔ کے پی کے اور فاٹا میں سینکڑوں اسکولوں کو بم سے اڑا دیا گیا ۔ بلوچستان کے علاقے پنجگور میں کئی ماہ سے نجی تعلیمی ادارے ابھی تک بند ہیں ۔ ان سکولوں پر حملے ہوئے ۔ طالبات پر تشدد ہوا ‘ ان کو اور ان کے اساتذہ کو دھمکیاں دی گئیں۔ ان سے کہا گیا کہ مخلوط تعلیم ترک کردیں ۔ یہ دھمکی کھلی تعلیم دشمنی ہے ۔ خصوصاً ایسے خطے میں جہاں پر لوگوں کا زیادہ رجحْان مذہب کی طرف نہیں ہے ۔ وہ مذہبی جنونی نہیں ہیں ۔ سب مسلمان اپنے معاملات کو خود بہتر سمجھتے ہیں ان کو مذہبی تعلیم کی ضرورت نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں مقامی علمائے کرام ‘ تمام سیاسی اور دینی پارٹیاں ‘ نامور سیاسی رہنماؤں نے ان تعلیم دشمن عناصر کی مذمت کی ہے جو بلوچستان میں تعلیم کے نظام کو تباہ کرنا چاہتے ہیں ان دہشت گردوں نے اپنے اصلی چہرے چھپائے ہوئے ہیں یہ گمان زور پکڑتا جارہا ہے کہ یہ مقامی لوگ نہیں ہیں ،اور کسی کی ایماء پر یہ کارروائیاں کررہے ہیں ۔ حکومت اور انتظامیہ خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ چند ایک دہشت گردوں، وہ بھی غیر مقامی ‘ نے پورے سول سوسائٹی کو یرغمال بنایا ہوا ہے کہ وہ بلوچستان میں تعلیم کے نظام کو تباہ کردیں گے۔ پنجگور کے متعلق پورے بلوچستان میں یہ مشہور ہے کہ وہاں معیاری تعلیم دی جاتی ہے اور وہاں سے لڑکے اور لڑکیاں امتحانات میں زیادہ اچھی پوزیشن حاصل کرتی ہیں ۔ ان میں نجی تعلیمی اداروں کا کلیدی رول ہے جو بلوچستان کے مستقبل کو سنوارنے کے لئے محنت کررہے ہیں ۔ بعض غیر مقامی افراد کو یہ سب کچھ پسند نہیں ہے کہ بلوچستان میں لڑکے اور لڑکیوں کو معیاری تعلیم دی جائے ۔ یہ دہشت گرد یہی سارا کام پنجاب کراچی اور دوسرے علاقوں میں کیوں نہیں کرتے؟ انہوں نے بلوچستان اور اس کے تعلیمی نظام کو کیوں نشانے پر رکھا ہے؟ اگر ان دہشت گردوں کا تعلق طالبان سے ہوتا تو ضرب عضب کی فوجی کارروائی ان کے خلاف بھی ہوتی ۔ بہر حال یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نقاب لگائے اورغیر مقامی دہشت گردوں کو بے نقاب کرے ۔ ان کو گرفتار کرے اور نجی اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کی ہدایات جاری کرے ۔ جتنا بھی تعلیمی سال ضائع ہوا ہے اس کی ذمہ داری حکومت اور اس کے اداروں پر ہے کہ وہ چند دہشت گردوں کو گرفتار نہ کر سکی ۔