|

وقتِ اشاعت :   August 13 – 2014

habib copyپاکستان میں سیاسی حکومتوں کے ایک، دو یا تین سالوں میں خاتمے کی تاریخ کافی پرانی ہے۔ پاکستان پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اس تجربے سے ایک سے زائد بار گزر چکی ہیں۔پیپلزپارٹی کی گذشتہ حکومت نے جب اپنے پانچ سال مکمل کیے اور عام انتخابات میں کامیابی کے بعد اقتدار مسلم لیگ ن کو منتقل ہوئی تو اقتدار کی اس قدر سہل انداز میں منتقلی کا منظر کافی خوشگوار محسوس ہوا۔ پھر یہ بھی ہوا کہ سندھ میں پیپلزپارٹی، پنجاب میں ن لیگ اور خیبر پختونخواہ میں تحریک انصاف کی حکومتیں بنیں اور بلوچستان بلوچ اور پشتون قوم پرستوں کے حوالے کردیا گیا۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی جب پہلی سالگرہ منائی گئی تو اندرون خانہ خبر آئی کہ مرکز اور تین صوبوں سندھ ، پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں حکومتیں تو طریقہ رائج الوقت بنیں تھیں مگر بلوچستان میں حکومت سازی کے لیے صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سے سیکڑوں کلومیٹر دور پنجاب کے ایک پر فضا مقام مری میں ایک خفیہ معاہدہ ہوا تھا۔ جس میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی سربراہی میں یہ طے پایا تھا کہ اسمبلی کی پانچ سالہ مدت کے دوران دو وزرائے اعلیٰ منتخب کیے جائیں گے۔پہلا وزیر اعلیٰ نیشنل پارٹی سے جبکہ دوسرا وزیر اعلیٰ ن لیگ سے ہوگا۔یعنی دونوں وزرائے اعلیٰ ڈھائی ڈھائی سال کے لیے مسند اقتدار پر براجمان رہیں گے۔با الفاظ دیگر ملک میں اقتدار کا ایک نیا، انوکھا اور نرالا فارمولا متعارف کراکے تجربے کے طور پر اسے بلوچستان میں آزمانے کا فیصلہ کیا گیا۔ یوں تو بلوچستان ہمیشہ سے ہی ملک میں نت نئے تجربات کی لیبارٹری کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔ کبھی اسے گریڈ بیس کے ایک افسر یعنی کمشنر کوئٹہ کے ذریعے چلانے کا تجربہ کیا گیا تو کبھی حساس ادارے میں تعینات گریڈ بیس کے ہی ایک اور افسر کے حوالے کیا جاتا رہا۔ سول سیکریٹریٹ میں تعینات ایک واقف کار کے مطابق اس وقت بھی عملًا پورا صوبہ تین افسران چیف سیکریٹری ، آئی جی پولیس اور آئی جی ایف سی مل کر چلارہے ہیں اور وزیر اعلیٰ بلوچستان زرغون روڈ کی ایک دلکش اور پر شکوہ عمارت میں آخری مغل تاجدار بہادر شاہ ظفر کی طرح قیدی کی حیثیت سے دن کاٹ رہے ہیں۔اور کچھ بعید نہیں کہ وہ بھی رہائی کے بعد بہادر شاہ ظفر کی طرح،،، ، عمر دراز مانگ کے لائے تھے چار دن،،،، دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں ،،،جیسی شعرہ آفاق غزل لکھ ڈالیں۔ بات تجربے کی چل پڑی تو قارئین کو چاغی کے پہاڑوں میں انیس سو اٹھانوے میں ہونے والے ایٹمی دھماکوں کی گونج آج بھی سنائی دیتی ہوگی۔یہ ایک ایسی گونج تھی کہ جس کا پتہ تجربے سے کچھ دیر قبل تک اس وقت کے وزیر اعلیٰ سردار اختر مینگل کو بھی نہ چل سکا۔ دوسری جانب ملک میں ہونے والے تمام راکٹ یا میزائل تجربوں کے لیے سانمیانی کی بندرگاہ بھی ہمیشہ کے لیے حاضر ہے۔ تو سو بسم اللہ ایک تجربہ اور سہی۔ سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت غیر ملکی کمپنیوں کے ساتھ مل کر کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے بنا رہی ہے اور تجربے کے طور یہ بجلی گھر بلوچستان میں لگانے کا ارادہ رکھتی ہے۔یعنی پہلے ایٹمی دھماکوں کی تابکاری کو بلوچستان کے عوام کا مقدر بنا کراورپھر میزائل تجربوں سے پیدا ہونے والی زہریلی دھول بلوچستان میں اڑانے سے ان کا دل نہیں بھرا۔ اب کوئلے سے بجلی بنا کر فائدہ خود اٹھائے اور آلودگی کے جہنم میں بلوچستان کے عوام کو جھونکنے کا ایک پروگرام بنایا جارہا ہے۔تو یہ ہے ن لیگ کے میاں برادران کی بلوچستان دوستی کہ جس کا وہ ہمیشہ رونا روتے رہتے ہیں۔