|

وقتِ اشاعت :   August 13 – 2014

abid mirیہ مضمون آج سے پانچ برس قبل 2009ء میں ملکی سطح کے ایک مرکزی اخبار کے لیے لکھا گیا لیکن ناقابلِ اشاعت قرار پایا، آج اس کی بازیافت کرتے ہوئے میری آنکھیں نم بھی ہیں اور لب خندہ زن بھی۔فیضؔ کا مصرعہ یاد آتا ہے؛ ’چاند کو گل کریں تو جانیں!‘ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ’’بزنجو نے بلوچستان کو انسان دوستی سکھائی ،بلوچستان دوستی سکھائی،بلوچ دوستی سکھائی،جن لوگوں کے لئے شاہ لطیف پر درج ذیل شعر صادق آتا ہے،بزنجو ان میں حتماََ شامل ہیں: میں پنہوں کے پاؤں کی پلکوں جھاڑوں دھول باندی بنوں بلوچ کی ،جاؤں سب کچھ بھول بزنجو نے اس ٹکڑے میں انسانی فلاح کا کام کیا جسے بلوچستان کہتے ہیں،اور ان تمام ٹکڑوں کے بزنجوؤں سے کامریڈی کی جو اپنے اپنے ٹکڑوں میں بزنجو گیری کر رہے ہیں۔‘‘ کل کے ناراض ،خفا اور روٹھے ہوئے بلوچستان میں ’’بابائے مذاکرات‘‘ اور آج کے جلتے،سلگتے،لڑتے،بھڑتے،کڑھتے بلوچستان میں ’’غدارِوطن‘‘ قرار دئیے جانے والے بزنجو کے لیے ایسی عقیدت کا اظہار ’آبیل مجھے مار‘ کی طرح ’آبلوچ مجھے لتاڑ‘ کے مصداق ہے،پراہلِ خرد کے ہاتھوں سنگساری اور خلقِ خدا کے ہاتھوں ذلت و خواری کے خوف سے اگر اہلِ جنوں حرفِ حق کی پاسداری چھوڑ دیں تو منصور کی روایت کا کیا ہو گا،سقراط کو لوگ کیوں کر یاد رکھیں گے،سچائی کی قوت پہ کوئی کیسے یقین رکھے گا۔ سو انسانوں کا انسانیت پر اعتبار قائم رکھنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ حرفِ حق کا اظہار کیا جائے،بزنجو کی عظمت کا اقرار کیا جائے ۔۔۔اور اس منصوری و سقراطی روایت کو بلوچستان میں قائم رکھنے والوں میں اپنے ٹکڑے میں بزنجو گیری کرنے والے یہ اہلِ ایمان،ڈاکٹر شاہ محمد مری صاحب ہیں۔پیشے کے لحاظ سے ماہرِ طب اور ایمان کے لحاظ سے عاشقِ انقلاب،عاشقِ بلوچ و عاشقِ بلوچستان!سو، انہوں نے اپنے فکری قافلے کے آباؤ اجداد کا شجرہ نصب ’’عشاق کے قافلے ‘‘ کے عنوان سے مرتب کرنا شروع کیا ‘ جس کی ایک جلد بابائے بلوچستان میر غوث بخش بزنجو پر مشتمل ہے، گیارہ اگست کو ہم ہر سال جن کی یاد مناتے ہیں،ہرسال کی طرح ان کی جدوجہد کو سراہنے اور ان سے روایتی عہد دہرانے سے کیا ہی اچھا ہو کہ اِس بار ہم اُن کے ہونہار شاگرد (اور اب خود ہونہار شاگرد پیدا کرنے والے استاد) ڈاکٹر مری کی عاشقانہ نظر سے عاشق بزنجو کی ایک جھلک دیکھیں،ان کے دانشورانہ دماغ سے قائد بزنجو کی تعلیمات ملاحظہ کریں اور ان کی محبوبانہ زبان سے محبوب بزنجو کی مدح سنیں۔ ڈاکٹر مری نے کتاب کے پیش لفظ میں ہی بزنجو صاحب کی ہیرو شپ کے معیار کو واضح کرتے ہوئے لکھا: ’’آج ہم عوام کے حقیقی ساتھی اور اپنے ہیرو جناب غوث بخش بزنجوکو عقیدت کا خراج پیش کرنے کے لئے قلم اٹھائے ہوئے ہیں،کل ہم شاہ مرید کے لیے لکھیں گے اور بولیں گے،پھر توکلی مست کے لیے، پھر بابو عبدالکریم امن کے لیے،قاضی داد محمد اور نسیم تلوی کے لیے،خان عبدالصمد خان اور ہاشم غلزئی کے لیے یہی محبت کے پھول نچھاور کریں گے۔ہم ان سب لوگوں کو یاد کریں گے جن پہ لے دے کے کمیونسٹ ہونے کا یا زیادہ سے زیادہ ہندوستان کے ایجنٹ ہونے کا ہی الزام لگایا جا سکتا ہے۔ہیرو تو وہ ہے جس نے محبت کے گیت گائے ہوں،امن کا درس دیا ہو،ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ کو اختیار کیا ہو،عوام کے ہیرو تیس سالہ خانہ جنگی برپاکرنے والے نہ تھے اور نہ ہی بلوچ کا ہیرو دلی پہ حملہ کرنے والا ہے بلکہ ہمارے ہیرو میر غوث بخش بزنجو ہیں جنہوں نے سیاست میں عوام دوستی،ترقی پسندی اور بین الاقوامیت کا راستہ اختیار کر کے اپنی پوری حیاتی لگا دی۔‘‘ پر حالات کا جبر دیکھئے کہ ان کی عوام دوستی اور ترقی پسندی کے باعث وہ تاحیات ملکی مقتدر قوتوں کے ہاں’مشکوک‘ رہے اور ان کی بین الاقوامیتی نے انہیں اپنے لوگوں کے ہاں معتوب قرار دے دیا۔ انہوں نے وطن و اہلِ وطن سے عشق کیا ،بھرپور عشق کیا،شاعرانہ عشق کیا، عمر بھر اسی عشق کو نبھاتے رہے اور اہلِ وطن نے بھی بلاشبہ ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جو شاعروں کے محبوب اکثر ان کے ساتھ کرتے ہیں۔۔۔پر ڈاکٹر مری کے بقول ’’اُف‘‘ کرنا تو ان کی زبان نے سیکھا نہ تھا۔بلاشبہ اچھی زبانیں بد دعاؤں سے پاک ہوا کرتی ہیں،خواہ انہیں اپنے بچوں سے شکست کھانی پڑے، برا بھلا ہی کیوں نہ سننا پڑے۔جس بلوچستان سے انہوں نے عشق کیا ،ایک وقت میں وہ ان کے مدِ مقابل تھا اور آج ان سے منہ پھیرے کھڑا ہے۔آج بلوچستان کی سیاست کرنے والے بزنجو کو اپنانے پر تیار نہیں اور جو ان کے نام پر سیاست کر رہے ہیں وہ کسی طور ان کے نام کی لاج رکھنے کے اہل نہیں۔۔۔اور ملاحظہ کیجیے کہ یہ المیہ اس بزنجو کے ساتھ ہے جس نے اپنے محبوب وطن کے لیے جیل بھی دیکھی،قید بھی کاٹی، بھوکے بھی رہے، مزدور بھی بنے، حقیر بھی ہوئے، سزائیں بھی جھیلیں۔۔۔کتنی سزائیں اور کیسی سزائیں۔۔۔؟ ڈاکٹر مری کی زبانی سنئے نا! ’’میر صاحب نے کل ملا کر تقریباََ25سال جیل میں گزارے،ان کی کل زندگی 72برس کی تھی،ان میں سے 25برس جیلیں چھین کر لے گئیں،جوانی کے پچیس سال،شعوری عمر کے پچیس سال، متحرک عمر کے پچیس سال،ہم کتنے ناترس لوگ ہیں کہ ایسی قربانیوں کو معمولی سی بات قرار دے کرآگے گزر جاتے ہیں،اس لیے اے میرے اچھے قاری!دو سطریں واپس جائیے اور ذرا احترام سے پڑھئے کہ میر غوث بخش بزنجو نے کل 72سال کی اپنی زندگی کی ایک تہائی یعنی 25برس جیل میں گزارے،جن میں قلی کیمپ بھی شامل ہے جہاں کی عقوبت گاہ میں8 گزرنے والا ہر سیکنڈ صدی کے برابر ہوتا ہے ۔۔۔صرف ایک بار انہیں کچھ لوگوں کے ساتھ قید رکھا گیا ،وگرنہ ہمیشہ تنہائی کی جیل انہیں دی گئی،بلوچستان کے مالک میر غوث بخش بزنجو کے متبرک ہاتھوں کو کرسیاں بُننے پر لگا دیا گیا،ان سے قالین بُننے کی مشقت لی گئی اور وہ دریاں بنانے پر مجبور کر دئیے گئے۔‘‘ اُنہیں اس قدر ’چھوٹی و معمولی سزائیں‘ شاید اس لیے دی گئیں کہ وہ صوبائی خود مختاری کی بات کرر ہے تھے جو اُس وقت ایسا ہی مطالبہ تھا جیسا کہ آج حقِ خود ارادیت یا حقِ علیحدگی کا۔وقت کے ارتقا ء کے ساتھ بلوچ قیادت کے مطالبے بدلے تو ان کے ساتھ سزائیں بھی بدل گئیں۔ جس نے ساحل و وسائل پر اختیار کی بات کی اُسے غار تلے دفن کر دیا گیا، جس نے حقِ خو ارادیت چاہا پنجروں میں ڈال دیا گیا اور جو پہاڑ پہ چڑھا اس کی تو واپسی کا کوئی راستہ نہیں۔بزنجو کے مقلد اس بات پہ ایمان رکھتے ہیں کہ اگر آج بزنجو حیات ہوتے توآج بھی اپنے عوام کے ساتھ ہوتے، عوام کے درمیان ہوتے۔ اس لیے کہ وہ تاریخی وسماجی ارتقا کی سائنس کے استاد تھے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ تیس برس میں ان کا موقف معروضی حالات کے تحت ارتقا پذیر نہ ہوتا۔۔۔!! لیکن ایک ایسے سماج میں جہاں محض جنگ بہادری کا پیمانہ ہو اور جنگ لڑنے کا معیار حکمت عملی کی بجائے جذبات کی شدت ہو، وہاں دھیمے مزاج والا فقیر منش، امن کا داعی بزنجو کیونکر توقیر پا سکتا تھا۔سو امن پسند بزنجو ملک کی جنگی جنون میں مبتلا استحصالی اسٹیبلشمنٹ کے ہاں تو معتوب تھا ہی لیکن اپنے دیس میں بھی محبوب نہ بن سکا، اور اسے ٹھکرائے جانے کا نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان آج تک سیاست میں شرافت اور بلوچستان قیادت کے فقدان کو رو رہا ہے ۔۔۔ڈاکٹر مری نے بزنجو صاحب کی موت کے تذکرے پر بجا لکھا کہ بزنجو صاحب کی وفات پر ’’۔۔۔اسٹیس مین شپ کی موت ہوئی بلوچستان میں،عظمت کی موت،محکم جمہوریت پسندی کی موت۔۔۔بلاشبہ اس شخص کی موت ہوئی جس کا بسترِ مرگ پہ اعلان تھا کہ ’میں زندگی بھر وطن اور اہلِ وطن سے عشق کرتا رہا‘، بلاشبہ بزنجو دو چیزوں سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے؛انسانیت سے اور وطن سے!‘‘ بر س ہا برس گذر گئے، آج کے جلتے ، سلگتے اور قیادت کی سطح پر ٹکڑوں میں بٹے بلوچستان میں اس عاشقِ بلوچستان کی کمی اور شدت سے محسوس ہوتی ہے ۔بلوچستان کے سوادِ اعظم سمجھے جانے والے قائدین آج اگریوں دو کناروں پر ہیں تو صرف اس لیے یہ کہ ان کے درمیان بزنجو نام کا پُل نہیں رہا۔بلوچ بے سروساماں ہیں تو صرف اس لیے کہ ان کے سروں پہ قائم بزنجو نام کا سائباں نہیں رہا،اور ان کے نام لیوا جو بے ایمانی کا شکار ہیں تو اس لیے کہ ان کو دولتِ ایمانی بانٹنے والااہلِ ایماں نہیں رہا! اِس کمی کا تذکرہ بھی ڈاکٹر مری نے کتاب کے آخری ابواب میں کیا خوب کیا ہے۔۔۔فرماتے ہیں: ’’بزنجو تاریخ کا ایک بہت بڑا فرد ہو گزراہے،اس کے نام سے اپنی شناخت وابستہ کرنے کے بہت سے فائدے ہیں۔۔۔مگر ان کے نام کے کچھ نقصانات بھی بہت بڑے ہیں،ان کے نام کا اپنا ایک ذائقہ ہے،ایک مخصوص خوشبو ایک شباہت ہے،اور ایک خاص مجسمہ نظروں میں گھومتا ہے،ان کے نام لیواؤں میں آج وہ چیزیں نہیں ہیں،وہ لوگ جو بزنجو دشمن کھیل کے کھلاڑی ہوں،ریفری ہوں یا پھر خاموش تماشائی،تاریخ کے مجرم ٹھہریں گے۔ایک تاریخی فریضے کی تکمیل میں ہم نے یہ سطریں لکھ دی ہیں،ورنہ ہم جانتے ہیں کہ آج کی سرعت سے بدلتی دنیا میں اَن پڑھ،سست الوجود،جاہ طلب اور دولت کے پجاری لوگ نہ تو بلوچوں کی قیادت کے اہل ہیں،نہ نچلے طبقے کے ترجمان بن سکتے ہیں،اور نہ امن عالم کے لیے کچھ کر سکنے کے اہل۔۔۔بڑ ی شخصیات کے بڑے نام صرف کچھ دنوں تک سہارا ہوتے ہیں،اس لیے کہ دنیا کو الیکٹرانک میڈیا نے سکیڑ کر رکھ دیا ہے،جھوٹ پل بھر میں نظر آتا ہے،مسائل بہت گھمبیر ہوتے ہیں،دنیا کی تبدیلیاں بہت جلداور بار بار سیاسی لائن اور سیاسی رویوں میں نظرثانی کا تقاضا کرتی ہیں،اور سب سے بڑی بات یہ کہ بلوچستان میں بزنجو صاحب کی پارٹی کو بزنجو صاحب ہی کی قائم کردہ روایات کا تسلسل برقرار رکھنا پڑتا ہے۔۔۔اور بزنجو کا پاپاخ(دستار) کافی بڑا تھا،ہر سر پہ شاید فٹ نہ بیٹھے۔۔۔ مگر ’جائے استاد ہنوز خالی است‘اور بزنجو کا پاپاخ ابھی تک موزوں سر کا منتظر ہے۔تاریخی فریضہ ہے پُر تو کرنا ہو گا،اسے پُر تو ہونا ہو گا!‘‘ اوراسی خواہش کا اظہار بلوچستان کے جواں فکر شاعر باری اسیر،بزنجو صاحب کے نام لکھی گئی اپنی ایک نظم کے آخری بند میں کچھ یوں کرتے ہیں: تم نے تاعمر جو تابندہ و روشن رکھا آج ہر سو نظر آ جائے وہی سرخ دِیا کاروانوں کو ملیں پھر تیرے قدموں کے نقوش بانجھ ذہنوں کو زیبائی ءِ تخلیق ملے تیرے افکار کا پرچم،تیری تحریک ملے اور جمہور کو آغازِ سفر مل جائے تیری آنکھیں،تیرا دل،تیرا جگر مل جائے حتماََ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس روز یہ دعائیں بارآور ثابت ہوئیں، بزنجو کے پاپاخ کا حامل سر مل گیااور جمہور کو اُن کادل، اُن کا جگر مل گیا، عوامی جدوجہد کا ڈھنگ اور بلوچستان کا رنگ بدل جائے گا۔ نیز اہلِ ایمان و عاشقانِ بلوچستان یہ یقین رکھتے ہیں کہ حالات کی آندھی اک دن تھمے گی اور وقت کی گرد جب بیٹھے گی تو اس کے پیچھے سے بلوچستان کا اصل چہرہ نظر آئے گا، عاشقِ بلوچستان کا چہرہ، روشن ضمیر کا چہرہ، اجلے خمیر کا چہرہ،جمہور کا چہرہ، تاریخ کا چہرہ، بزنجو کا چہرہ، ہم سب کا چہرہ!!