|

وقتِ اشاعت :   August 22 – 2014

بدھ کی رات کو ملک کے نجی ٹی چینلز کو طویل انتظار کے بعد اچانک پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اور حکومت کے درمیان مذاکرات کی خبر مل گئی جو ریڈ زون کے قریب واقع ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں منعقد کی گئی تھی۔ فوج کی جانب سے مسئلے کے پرامن حل کی کال کے بعد ہونے والی اس ملاقات کا نتیجہ حیران کن نہیں تھا۔ تاہم جب کانفرنس روم سے نکلتے ہوئے دونوں ٹیموں پر ٹی وی کیمروں کی نظر پڑی تو ایک شخص کی موجودگی زیادہ تر لوگوں کے لیے حیرت کا باعث بنی۔ وہ شخص گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور تھے جنہوں نے پانچ رکنی حکومتی کمیٹی کی قیادت کی تھی جس میں کابینہ کے اراکین احسان اقبال، عبدالقادری بلوچ، پرویز رشید اور زاہد حامد شامل تھے۔ ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال تھا، چوہدری سرور ہی کیوں؟ حکمران جماعت میں موجود بیشتر تجربہ کار سیاست دانوں کی موجودگی کے باوجود انہیں ہی اس کام کے لیے کیوں منتخب کیا گیا؟ حالیہ عرصے میں سرور صاحب وزیراعظم کے لیے ‘ٹرابل شوٹر’ کے طور پر ابھرے ہیں اور کئی مشکل حالات سے انہیں نکالنے میں بھی کامیاب رہے ہیں۔ یہ سرور ہی تھے جنہوں نے 23 جون کو طاہر القادری کو اسلام آباد کے بجائے لاہور میں اترنے کے لیے منایا۔ انہوں نے ہی انہیں لاہور کے کور کمانڈر سے طاہر القادری کو چھوڑ نے کی درخواست کی کیوں کہ عوامی تحریک کے سربراہ کو خدشہ تھا کہ پنجاب حکومت انہیں نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گی اور ان کی حفاظت فوج کرے۔ اب کیسے انہوں نے ڈاکٹر قادری کو گورنر کے اپنے قافلے میں سفر کرنے پر قائل کیا یہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے لیکن ان کی مداخلت کی وجہ سے اس دن کا اختتام ڈرامائی انداز میں ہوا تھا۔ جب سے دارالحکومت کی جانب مارچ کا آغاز ہوا ہے سرور صاحب دوبارہ سے زندہ ہوگئے ہیں۔ انہوں نے صحافیوں سے یوم آزادی کے موقع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ انہوں نے اور متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین نے ڈاکٹر قادری کو اسلام آباد میں مارچ کرنے کی اجازت دلوانے میں اہم کردار ادا کیا۔ اب جب کہ دونوں مارچوں نے شاہراہ دستور پر اپنے قدم جمالیے ہیں، سرور صاحب کا ٹاسک مشکل تر ہوگیا ہے۔ اب انہیں اس پیچیدہ صورت حال سے نمٹنے کے لیے راستہ تلاش کرنا ہوگا جس کی وجہ سے اسلام آباد اور روالپنڈی میں زندگی مفلوج ہوکر رہ گئی ہے۔ ایک تجزیہ کار کا کہنا تھا کہ دارالحکومت کے رہائشی براہ راست اس صورت حال سے متاثر ہور رہے ہیں تاہم ملک کے دیگر حصوں میں ٹیلی ویژن اسکرینوں سے چپکے ہوئے لوگ شدت سے اس مسئلے کے حل کا انتظار کررہے۔ سرور صاحب ہوئی عام آدمی نہیں۔ گلاسگو میں رہنے والے کروڑ پتی سرور صاحب نے خاندانی کیش اینڈ کیری کا کاروبار سنبھالا جبکہ ان کا بنیادی طور پر تعلق فیصل آباد سے ہے۔ سرور صاحب برطانوی ہاؤس آف کامنس کے رکن بھی رہ چکے ہیں جبکہ انہوں نے پارٹی لیڈر ٹونی بلیئر اور گورڈن براؤن کے ساتھ بھی کام کیا ہے۔ اسی دوران ان کے پاکستانی سیاست دانوں سے رابطے بڑھے۔ ایسا کہا جاتا ہے کہ سرور صاحب نے شریف خاندان کی جلاوطنی کے دوران نہ صرف انہیں بہترین انداز میں رکھا بلکہ برطانیہ میں ان کا کاروبار مضبوط کرنے میں معاونت فراہم کی۔ ایک صحافی جنہوں نے لندن میں شریف خاندان کی جلاوطنی کو قریب سے دیکھا، نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے عملی طور پر اپنا والٹ شریف خاندان کے ہاتھ میں رکھ دیا۔ متعدد افراد کا خیال ہے کہ انہیں اسی مہمان نوازی کا انعام گورنر پنجاب کے عہدے کے طور پر دیا گیا۔ درحقیقت سرور صاحب کا انتخاب اگست 2013 میں اچانک ہی سامنے آیا تھا۔ اپنے اس نئے کردار کو نبھانے کے لیے سرور صاحب کو اپنی برطانوی شہریت بھی ترک کرنا پڑی تھی۔ تاہم تحریک انصاف کے ساتھ مذاکراتی ٹیم میں ان کی موجودگی نے متعدد سوالات کو جنم دیا۔ پی ٹی آئی کمیٹی کے ایک رکن نے ڈان کو بتایا کہ جب ہمیں علم ہوا کہ چوہدری صاحب بھی حکومتی کمیٹی کا حصہ ہیں تو ہمیں لگا کہ یہاں بات وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی ہورہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ سرور صاحب کو ان کے برطانوی کنکشن کے باعث نواز شریف نے چیف مذاکرات کار بنایا۔ عمران خان کی سابق اہلیہ جمائمہ گولڈ اسمتھ برطانوی اسٹبلشمنٹ سے کافی قریب ہیں اور ادھر سرور صاحب بھی اپنا کردار ادا کرچکے ہیں۔ اس کے علاوہ اس بات میں کوئی راز نہیں کہ عمران خان کے برطانوی شاہی خاندان اور دیگر اہم برطانوی سیاست دانوں کے ساتھ روابط ہیں۔ پی ایم ایل ن کے رہنماؤں کا خیال ہے کہ سرور صاحب اپنے برطانوی کنکشن کے باعث ہی اس ٹیم کا حصہ ہیں ورنہ انہیں پاکستانی سیاست کا کم ہی علم ہے۔