|

وقتِ اشاعت :   August 28 – 2014

کوئٹہ( اسٹا ف رپو رٹر): بلوچستان اگرچہ معدنی وسائل سے مالامال صوبہ ہے لیکن اس کے باوجود صوبے میں عوام کی ایک بہت بڑی تعداد غربت اور دیگر مسائل کا شکار ہے ۔ صوبے کے عوام کا سب سے بڑا ذریعہ معاش زراعت ہے اور بلوچستان میں گزشتہ 10برسوں سے زراعت دن بدن خرابی اور تنزلی کی جانب گامزن ہے صوبے میں بجلی کی بڑھتی ہوئی لوڈشیڈنگ اور زیر زمین پانی کی قلت اس کی بڑی وجوہات ہیں تین اضلاع نصیرآباد، جعفرآباد اور جھل مگسی جہاں کھیتی باڑی نہری نظام سے ہوتی ہے دیگر اضلاع میں زراعت کا انحصار ٹیوب ویل ،کاریزات اور بارشوں پرہے، نصیر آباد اورجعفرآبادکے اضلاع کو بلوچستان کا گرین بیلٹ بھی کہا جاتا ہے ان اضلاع میں سالانہ لاکھوں ٹن گندم، چاول، اور دیگر فصلات پیدا ہوتی ہیں مگر المیہ یہ ہے کہ ا ن دنوں وہاں کے لوگوں کو خوراکی اشیاء کی شدید قلت کا سامنا ہے ۔ نصیرآباد میں میں خوراک کی کمی کا اندازا اس بات سے بہ آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے چار سالوں سے لاکھوں ایکڑ پر محیط اراضی زیر کاشت نہیں لائی جاسکتی2010اور 2012کے خوفناک سیلابوں نے جہاں سینکڑوں دیہات کو صفحہ ہستی سے مٹایا وہاں ان سیلابوں کی وجہ سے ان اضلاع میں زراعت بھی بہت بری طرح سے تباہی کا شکار ہوگئی ا سسٹنٹ کمشنر ڈیرہ مراد جمالی حاجی غلام حسین بھنگر کے مطابق 2010اور 2012ء میں آنے والے دونوں سیلاب نصیر آباد اور جعفرآباد کے اضلاع میں تباہی کا پیغام لے کر آئے جس کے اثرات تاحال دیکھے جاسکتے ہیں سرکاری اعدادوشمار کے مطابق2012کے سیلاب میں 93لوگ جاں بحق ہوگئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اس تباہ کن سیلاب میں 4749مکانات متاثر ہوئے،زراعت کی تباہی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیلاب کے نتیجے میں12لاکھ ایک سو63ایکڑ زرعی اراضی متاثر ہوئی اسسٹنٹ کمشنر کے مطابق سیلاب کے فوراً بعد سے حکومت نے سیلاب متاثرین کی بحالی اور صورتحال کی بہتری کے لئے اقدامات کا سلسلہ شروع کیا جو تاحال جاری ہے مگر اس کے باوجود یہاں پر خوراک کی کمی کا مسئلہ نہ صرف موجود ہے بلکہ اس میں دن بدن اضافہ بھی ہوتاجارہا ہے اے سی ڈیرہ مراد جمالی کا کہنا تھا کہ مستقبل میں نصیرآباد اور جعفرآباد کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے بچانے کے لئے ضروری ہے کہ مختلف مقامات پر بند تعمیر کئے جائیں اورایسے منصوبے شروع کئے جائیں جو دیرپا نتائج کے حامل ہوں ۔ان اضلاع میں غذائی قلت کے بارے میں ہم نے نصیرآباد کے رہائشی 42سالہ فضل حق سے بات کی جس کے 8بچے ہیں وہ نصیرآباد کے گوٹھ عطاء محمد میں رہائش پذیر ہے 2010ء کے سیلاب سے قبل فضل حق کی اپنی زمینداری تھی مگر سیلاب کے بعد اس کی زمینداری ختم ہوگئی ہے اور ان دنوں وہ محنت مزدوری کرکے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہے ۔ فضل حق نے حکومت کی جانب سے خاطرخواہ امداد نہ ملنے کی شکایت کی اور کہا کہ اس سال نہرمیں پانی کم ہونے کے سبب اس کی چاول کی فصل نہیں ہوسکی۔ ان کا کہنا تھا کہ بچوں کو دو وقت کا کھانا لا کردینااس کے لئے کسی امتحان سے کم نہیں ہوتا۔سیلاب اور خوراک کی کمی نے جہاں ہر شخص کے لئے مشکلات پیدا کیں وہاں اس سے بچے اور خواتین بھی بری طرح متاثر ہوئی ہیں۔ جس کا اندازہ اس سے لگای اجاسکتا ہے کہ سول ہسپتال ڈیرہ مراد جمالی میں غیر سرکاری تنظیم ایم ایس ایف کے تحت جو وارڈ قائم کیا گیا ہے وہاں غذائی قلت کے شکار بچوں کے لانے کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ہسپتال کے ڈاکٹر عبدالغفار ہاشمی کا کہنا ہے ایک وارڈ میں گیارہ بچے داخل ہیں ۔ زیر علاج بچوں کی اکثریت غذائی قلت کا شکار ہے خوراک کی کمی کا سامنانہ صرف بچوں کو ہے بلکہ اس کی زد میں مائیں بھی آرہی ہیں اور ان کی صحت پر بہت منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے ایک سروے کے مطابق پاکستان کے جو20اضلاع شدید غذائی قلت کا شکار ہیں ان میں 10اضلاع بلوچستان کے ہیں ۔خوراک کمی کی وجہ سے نہ صرف ماؤں اور بچوں کی شرح اموات میں اضافہ ہورہا ہے بلکہ غذائی قلت کا شکار بچے اور خواتین متعدد دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہورہے ہیں جس پر ماہرین صحت شدید تشویش کااظہار کررہے ہیں ۔اگرچہ بلوچستان کی موجودہ حکومت نے صوبے میں صحت کے شعبے پر ماضی کے مقابلے میں زیادہ توجہ مرکوز کی ہے اور اس شعبے کے لئے مختص فنڈز میں بھی اضافہ کیا ہے تاہم ماہرین صحت اور صحت پر کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق ابھی اس شعبے میں مزید کام کرنے کی ضرورت ہے نہ صرف حکومت کو اس ضمن میں اقدامات اٹھانے چاہئیں بلکہ ساتھ ہی ساتھ غیر سرکاری تنظیموں کو بھی اس حوالے سے آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ بلوچستان میں غذائی قلت میں اضافہ ایک سنگین مسئلے کی نشاندہی ہے جس کی جانب اب توجہ نہیں دی گئی تو آنے والے وقتوں میں صورتحال زیادہ گھمبیر ہوسکتی ہے ۔