|

وقتِ اشاعت :   August 29 – 2014

کوئٹہ: بلوچستان میں ایک بار پھر صحافی نشانہ پر آگئے، گزشتہ روز ’’آن لائن‘‘ نیوز ایجنسی کوئٹہ کے بیوروچیف بلوچستان یونین آف جرنلسٹ کے مرکزی سیکریٹری جنرل ارشاد مستوئی اور ان کی ٹیم کو مسلح افراد نے آفس کے اندر گھس کر فائرنگ کرکے شہید کردیا۔ عینی شاہدین کے مطابق تینوں افراد کی لاشیں کئی دیر تک آفس کے اند رپڑی رہی مگر سیکیورٹی فورسز کا نام ونشان تک نہیں تھا، ایک صحافی کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایدھی سینٹرکال کرکے اطلاع دی کہ کبیر بلڈنگ پر ایک میڈیا ہاؤس پر حملہ ہواجس کے نتیجے میں دو افراد جاں بحق ہوئے ایمبولینس روانہ کیا جائے پھر ایمبولینس وہاں پہنچی جہاں رپورٹر عبدالرسول اور محمد یونس کی لاشیں سول ہسپتال منتقل لائی گئی۔ صحافیوں کی بڑی تعداد سول ہسپتال کوئٹہ میں موجود تھی جو ارشاد مستوئی کی جسد خاکی کاانتظار کررہے تھے جس پر وہاں موجود کچھ افراد کا کہنا تھا کہ ایمبولینس روانہ کردی گئی ہے لیکن ہمارے ایک سینئر صحافی نے جب فون پر وہاں موجود اپنے دوستوں سے اطلاعات وصول کی کہ کبیر بلڈنگ میں موجود آن لائن کے آفس سے ارشاد مستوئی کی جسد خاکی کو اٹھانے کیلئے ایمبولینس پہنچی ہے جس پر وہاں موجود دوست کا کہنا تھا کہ نہیں ابھی تک اس کی لاش آفس کے اندر پڑی ہے جس کے بعد فوراََ صحافی دوست روانہ ہوئے اور ارشاد مستوئی کی جسد خاکی کو اپنے ساتھ لائے ۔ تعجب اس بات کا ہے کہ اس تمام صورتحال پر علاقہ پولیس کا کہیں نام ونشان نہیں تھا۔ کبیر بلڈنگ جناح روڈ کے کارنر پر واقع جو ایک مصروف شاہراہ ہے جہاں دکانیں اور دیگر نیوز آفسزکے علاوہ چھوٹی مارکیٹ بھی ہے ،جہاں لوگوں کی آمدورفت زیادہ ہوتی ہے، جبکہ معمول کے مطابق پولیس روزانہ وہاں گشت کرتی ہے مگر دن دیہاڑے کس طرح مسلح دہشت گردوں نے ارشادمستوئی اور ان کے دو ساتھیوں کو دیدہ دلیری کے ساتھ شہید کرکے فرار ہوگئے ملزمان کی گرفتاری توکجا واردات کے ایک گھنٹے کے بعد بھی سیکیورٹی اہلکار نہیں پہنچیں جوحکام کی نااہلی کا کھلا ثبوت ہے۔، وزیراطلاعات عبدالرحیم زیارتوال نے سی سی پی او کوئٹہ عمر چیمہ جو وزیراعلیٰ ہاؤس کے سامنے ان کے ساتھ موجود تھے مگر افسوس سی سی پی او سے یہ تک نہیں پوچھا گیاکہ علاقہ پولیس گھنٹوں تاخیر کے بعد بھی وہاں کیوں نہیں پہنچی کم ازکم یہ اقدام تو فوری طور پر اٹھانا ضروری نہیں تھا کہ اس علاقے کے تھانے کے حکام کو فوری طور پر معطل کرکے تحقیقات شروع کرنے کے احکامات صادر فرماتے تاکہ صحافی برادری کم ازکم اس معاملے کو حکمرانوں کی جانب سے ان کی سنجیدگی سمجھتے، موجودہ حکومت نے اب تک یہ دعوے تو کیے ہیں کہ ہماری حکومت کے دوران ٹارگٹ کلنگ، اغواء برائے تاوان ودیگر سنگین جرائم میں کافی حد تک کمی آئی ہے، مگر گزشتہ روز رونما ہونے والے افسوسناک واقعے میں ملوث دہشت گردوں اور پولیس کی کوتائی برتنے پر حکومت کیا اقدامات اٹھائے گی جس پر صحافیوں کی گہری نظر ہے اگرصوبائی حکومت نے صرف بیانات تک ہی اپنے آپ کو محدود کیا تو صحافی برادری مزید تشویش میں مبتلا ہونگے اور خود کو غیر محفوظ سمجھیں گے جو کسی المیہ سے کم نہیں ہوگا اور موجودہ حکمرانوں کے بیانات کو صرف دعوے اور ان کی دلچسپی کو صرف حکمرانی ہی سمجھیں گے۔