|

وقتِ اشاعت :   September 2 – 2014

ابتداء سے ہی عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری نہ جمہوریت پر یقین رکھتے تھے اور نہ مذاکرات کے حامی تھے ۔وہ ہر آنے والے دن حکومت وقت پر دباؤ بڑھاتے رہے۔ان کو شاید مقتدرہ کے چند حلقوں کی حمایت حاصل تھی کہ ان کو لاہور سے لے کر وزیراعظم ہاؤس اور پارلیمان کی بلڈنگ تک محفوظ راستہ فراہم کیا گیا ۔ ان کے احتجاج کو تمام سہولیات فراہم کی گئیں تاکہ چند ہزار مظاہرین حکومت کو یر غمال بنائیں اور حکومت کو مجبور کریں کہ وہ استعفیٰ دے۔ ویسے استعفیٰ طلب کرنے کا کوئی آئینی اور اخلاقی جواز نہیں ہے ۔ موجودہ حالات سے حکومت یہ سیاسی جنگ ہارتی نظر آرہی ہے بلکہ حکومت کے بعض اداروں نے مظاہرین کے حق میں کام کرنا چھوڑ دیا ۔ مظاہرین نے پی ٹی وی کی نشریات بند کردیں اور مظاہرین بلڈنگ میں داخل ہوگئے۔ پی ٹی وی نشریات کو جاری رکھنے کے لئے سیکورٹی ادارے پہنچ کر حالات کو قابوکیا اور مظاہرین سے کمپاؤنڈ کو خالی کرایا۔ بہر حال پی ٹی وی کی نشریات بند ہونا حکومت کی مکمل ناکامی کی نشانی ہے ۔ دوسری جانب چند ہزار مظاہرین وزیراعظم ہاؤس کے گیٹ تک پہنچ گئے ،ان کا آمنا سامنا فوج کے دستوں سے ہے ۔ تاہم رہنماؤں کی طرف سے مظاہرین کو حکم دیا گیا کہ پی ایم ہاؤس کے دروازے پر ’’ پر امن ‘‘ احتجاج جاری رکھیں اور تشدد سے اجتناب کریں ۔ تاہم حکومت کی مسلسل پسپائی اس کو مکمل شکست کی طرف تیزی سے لے جارہی ہے ۔ اب دنوں میں نہیں گھنٹوں میں صورت حال میں تبدیلی آرہی ہے ۔ ایسی صورت میں احتجاجی رہنماؤں کو مذاکرات کی دعوت دینا ایک بے معنی فعل ہے جس سے کسی قسم کے نتائج حاصل نہیں ہوسکتے۔ احتجاجی رہنماء بظاہر ’’ انتقال اقتدار‘‘ کا انتظار کررہے ہیں اس کے بعد وہ ہمیشہ کے لئے اپنے اپنے گھروں کی طرف روانہ ہوں گے۔ شاید مستقبل میں ان رہنماؤں کا کوئی سیاسی کردار نہ ہو ۔ یہ اپنے اپنے سیاسی قبرستان میں دفن ہوں گے اور جلد ہوں گے۔ ’’ انتقال اقتدار‘‘ کے بعد کے حالات میں تبدیلی نمایاں ہوگی ۔ تمام قومی سیاسی پارٹیاں ’’ انتقال اقتدار‘‘ کی حمایت سے گریز کریں گے بلکہ بڑی پارٹیوں‘ پی پی پی اورمسلم لیگ ن کی جانب سے زبردست مخالفت کا سامنا ہوسکتا ہے ۔ بہر حال ’’ انتقال اقتدار‘‘ ملک میں سیاسی انتشار کا دوسرا نام ہوگا اور ملک میں سیاسی عدم استحکام دشمنان ریاست کے حق میں ہوگا ۔ عوام کے حق میں نہیں ہوگا۔ بہر حال حالات پر حکومت کا کنٹرول نہیں رہا ، نہ ہی حکومت موجودہ حالات میں پارلیمان کا مشترکہ اجلاس کرسکے گی اور نہ ہی مظاہرین اس کی اجازت دیں گے۔ مذاکرات کی پیش کش کے بعد مظاہرین نے پی ٹی وی پر قبضہ کر لیا ۔ پارلیمنٹ ہاؤس پہلے سے ان کے قبضے میں ہے ۔ لہذا اس بات کے امکانات کم ہیں کہ پارلیمان کا مشترکہ اجلاس ہوگا ۔