|

وقتِ اشاعت :   September 14 – 2014

اسلام آباد: آج سے تیس پینتیس سال پہلے کسی کے وہم وگمان بھی نہیں تھا کہ ایک دن اسکول جانے والے معصوم بچوں کو کتابوں اور کاپیوں کا اتنا زیادہ بوجھ اٹھانا پڑے گا کہ ان کی کمر ہی دوہری ہو جائے گی۔ یہ مسئلہ پہلے پہل ترقی یافتہ ممالک کو درپیش ہواتھا ، مگر انہوں نے اس کا حل ’’ای بک‘‘ کے ذریعے نکال لیا ہے۔ مگر جب یہ پریشانی ترقی پذیر ممالک کے اسکولوں میں آئی تو کسی نے بھی اس جانب توجہ نہ دی۔ یوں درآمدی تعلیم وتربیت کے اس تحفے کے ساتھ ہمارے بچے بھاری بھرکم اسکول بیگ اٹھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ آج پاکستان سمیت دنیا کے بیشتر ممالک میں اسکول جانے والے بچے انتہائی وزنی بستے کمر پر اٹھائے نظر آتے ہیں۔ ان کم سن طالب علموں کو دیکھ کر اکثروبیشتر ریلوے کے قلی یاد آجاتے ہیں۔ جدید نظام تعلیم نے جہاں والدین کو معاشی سطح پر تو وہیں بچے کو کتابوں کے بوجھ سے دوہرا کر کے رکھ دیا ہے، بہ ظاہر یہ نظام بچے کی فلاح وبہبود اور روشن مستقبل کی نوید سناتا ہے مگر یہ نظام اس پہلو پر غور کرتا ہوا ہر گز نظر نہیں آتا کہ ایک کم سن طالب علم کو کتنا وزن اٹھانا چاہیے؟ ماہرین طب اس مسلے پر متفق ہوئے ہیں کہ ضرورت سے زیادہ بوجھ اٹھانے والے بچوں کی نشوونما متاثر ہوتی ہے۔ پہلی جنگ عظیم کے بعد تعلیمی ماہرین نے کہا تھا کہ اسکول کے بستوں کا وزن بچے کے وزن سے دس سے بارہ فی صد سے ہر گززیادہ نہیں ہونا چاہیے۔ یہ اصول پہلی عالمی جنگ کے بعد وضع ہوا تھا اور اس کی وجہ یہ تھی کہ طویل سفر کے دوران بستہ اٹھانے والے بچے کہیں جلد تھک نہ جائیں۔ اس وقت اس طویل سفر سے مراد کم از کم بیس کلومیٹر کا فاصلہ ہوا کرتا تھا مگر موجودہ دور میں بچے اسکول جانے کے لیے اب اتنا لمبا سفر پیدل طے نہیں کرتے اوراس وجہ سے یہ قانون فرسودہ ٹھہرا اور اسکول بیگ کا وزن بڑھا دیا گیا۔ اب پاکستان سمیت بہت سے دیگر ممالک میں اس جانب سوچنے کی کسی کو فرصت ہی نہیں۔ کیوں کہ بچوں کے اسکول اس دور میں بھی کم از کم پانچ سے دس کلو میڑ فاصلے پر ہیں۔ پھر ان کے والدین بھی صاحب ثروت نہیں جو اپنے بچوں کو ذاتی گاڑیوں پر اسکول چھوڑ کر اور واپس لے کر آئیں،ایسے والدین کے بچے کیا کریں؟ ایک طریقہ تو یہ ہے کہ وہ بچے چین کے معذور  Yuhong کی طرح ڈٹ جائیں ۔جس کے متعلق میڈیا رپورٹ یوں کہتی ہے۔’’معذوری انسان کو اتنا کمزور بنادیتی ہے کہ انسان دوسروں کے سہارے زندگی گزارنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور کبھی اتنا باہمت کہ بڑی سے بڑی مشکل بھی اس کی زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ چین سے تعلق رکھنے والے 10سالہ بچےYan Yuhong کا شمار بھی ایسے ہی جواں مرد انسانوں میں ہوتا ہے جو جسمانی معذوری کے باوجود زندگی گزارنے کا فن جان لیتے ہیں۔جب یہ بچہ صرف ایک سال کا تھا تو اس کے جسم کا نچلا دھڑ مفلوج ہوگیا، یہ اپنی ٹانگوں پر کھڑا نہیں ہوسکتا تھا لیکن اس نے ہمت نہیں ہاری اورروزانہ اسکول جانے کو اپنا معمول بنا لیا۔ اپنے ہم عمر بچوں کی نسبت اسکول نہ جانے اور ہوم ورک نہ کرنے کے عذر تراشنے کے بجائےYanروزانہ اْلٹا کھڑا ہوکر اپنی ہتھیلیوں کے بل چلتے ہوئے اسکول پہنچنے لگا۔ ہاتھوں کی مدد سے آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسکول پہنچنے میں Yanکو تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ لگتا ہے جب کہ اس کی بہن اسکول کا بستہ ساتھ لے کر چلتی ہے۔ جب بہن بھی تھک جاتی ہے تو چند لمحوں کا وقفہ کرنے کے بعد یہ سفر پھر شروع ہو جاتا ہے‘‘۔ دیکھا جائے تو وطن عزیز میں آج بھی لاکھوں بچے اس سے ملتی جلتی صورت حال سے میں اپنے اپنے اسکول جاتے ہیں۔ اس ضمن میں ایک ریٹائرڈ اسکول ہیڈ ماسٹر روشن دین نے کہا’’جب سے پرائمری اسکولوں میں تختی اور سلیٹ کا خاتمہ ہوا ہے اور ان کی جگہ رف اور نیٹ کاپیوں نے لی ہے، تب سے بستے بھاری ہونے لگے ہیں۔ پہلے تمام مضامین کی ایک ہی رف کاپی ہوتی تھی اب ہر مضمون کی الگ الگ رف کاپی بستے میں ہونا لازمی ہے۔اب تو یہ کتابیں اور کاپیاں نجی اسکولوں میں اسکول والے خود فراہم کرنے لگے ہیں اور اس پر کمیشن کی مد میں والدین سے فیس کے علاوہ بھی رقم بھی وصول کرتے ہیں۔ دوسری جانب یہ کتابیں اور کاپیاں بیچنے والوں کی بھی چاندی ہو جاتی ہے،اب ان کی دوکان کے کاونٹر اسکولوں کے اندر قائم ہو چکے ہیں،جہاں سے خرید داری لازمی قرار دی جاتی ہے۔گذشتہ کئی سالوں سے اندھے نفع کی خاطر یہ خرید داری نہایت غیر محسوس طریقے سے بڑھتی ہی چلی گئی اور اب یہ اس حد کو چھو رہی ہے جہاں معصوم طالب علموں کی کمر دوہری ہو چکی ہے۔ بھاری بستے کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ امراء کے بچوں کا بستہ اٹھانے کے لیے اب گاڑی کے ڈرائیور کے علاوہ ایک ہیلپر بھی رکھنے کا رواج ہے جو بچوں کے بستے اٹھانے پر مامور ہوتا ہے۔ بھاری بستوں کے حوالے سے ایک’’ پک اینڈ ڈراپ‘‘ ویگن کے ڈرائیور نوید نے کہا ’’ میری گاڑی میں پرائمری کے دس بچے اسکول آتے جاتے ہیں، میں بچوں کو جب ان کے گھر سے لیتا ہوں تو ہر بچے کا بستہ اٹھا کر گاڑی کی چھت پر بھی رکھتا ہوں اگر آپ میری گاڑی کے ان دس بستوں کا مجموعی وزن کریں تو یہ 100 کلو سے کم نہیں ہو گا،اسکول سے واپسی پر بھی میں یہ مشقت کرتا ہوں حالاں کہ یہ میرا کام نہیں‘‘۔ کڈز چیک نامی ایک عالمی جائزے میں بھی اس بات کی تصدیق کی گئی ہے کہ بستہ اٹھانے کے معاملہ میں تمام بچے یکساں نہیں ہوتے۔ کچھ بچے اپنے جسمانی وزن کا صرف ایک تہائی وزن اٹھا سکتے ہیں جب کہ کچھ بچے اس سے بھی کم وزن اٹھانے کے اہل ہوتے ہیں۔ ماہرین کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں انفرادی عوامل کو مدنظر رکھنا انتہائی ضروری ہے، اس لیے اسکول میں اضافی بوجھ ڈالنے سے پرہیز کیا جانا چاہیے ۔ اس رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ بچے کی جسمانی حرکات وسکنات کو مد نظر رکھ کر بنائے جانے والے اسکول کے بستے ہی خریدنے چاہیں کیوںکہ ان کی وجہ سے خاص طور پر ریڑھ کی ہڈی پرغیرضروری بوجھ نہیں پڑتا۔ اب ماہرین کا یہ کہنا ہے کہ بستہ جسم کے بہت قریب یعنی جسم سے تقریباً چپکا ہوا ہونا چاہیے۔ اس حوالے سے والدین کو مشورہ دیا گیا کہ وہ جب بھی بچے کا اسکول بیگ اس کی پیٹھ پر لٹکائیں تو اس امر کو یقینی بنایا جائے کہ بستہ ڈھیلا یا لٹکا ہوا نہ ہو اور بچے کی استطاعت سے بیگ بہت بڑا نہ ہو، کیوںکہ یہ سارے عوامل بھی بوجھ کا سبب بنتے ہیں۔ اگر اسکول گھر سے مناسب پیدل مسافت پرہو تو چھوٹے طالب علموں کو بھاری بھر کم بستے کے ساتھ سکول جانا کسی سزا سے کم نہیں ہوتا۔آپ اس بستے کو پہیے بھی لگوا دیں تو بھی اس کو دھکیلنا آسان نہیں کیوں کہ راستہ ناہموار ہوسکتا ہے۔ برصغیر تقسیم ہوکر آزاد ہو گیا لیکن اس دھرتی کی محنت کش نسل ابھی تک سماجی قیدوبند کی صعوبتیں جھیل رہی ہے ۔ سید ذوالفقار علی بخاری صاحب کی تحریر ’’بھائی بھائی‘‘ میں سے ایک اقتباس ملاحظہ ہو جس میںتقسیم ہند سے قبل بچے کے اسکول  جانے کی منظر کشی کی گئی ہے۔’’ بھائی جان اسکول میں پڑھتے تھے اور میں ابھی اسکول میں داخل بھی نہیں ہوا تھا۔ والد گھر آئے تو بہت خوش تھے۔ میری والدہ سے کہا مبارک ہو کل پیر احمد شاہ کو اسکول میں انعام ملے گا۔ بھائی گھر آئے تو میں نے کہا ’’لالہ اسکول میں مار پٹتی ہے یا انعام ملتا ہے؟‘‘ وہ چپ رہے۔ پھر رات بھر ہم دنوں بھائی جاگتے رہے۔ وہ مجھے اسکول کے قصے سناتے رہے اور میں سنتا رہا۔ مجھ سے کہنے لگے ’’تم بڑے ہوتے تو میں تم کو کل ساتھ لے جاتا‘‘۔ میں رو پڑا۔ انہوں نے مجھے اْٹھ کر پیار کیا اور کہا۔ ’’اچھا دیکھو کل میں تمہاری شلوار پہن کر انعام لینے جاؤں گا‘‘۔ میں یہ سن کر بہت خوش ہوا اور ہنسی خوشی سو گیا۔ اگلے دن وہ میری شلوار پہن کر انعام لینے کے لینے چلے گئے۔ ان کو کچھ کتابیں انعام میں ملی تھیں۔ جن پر سرخ رنگ کا دفتری فلیتہ بندھا ہوا تھا۔ کئی دن تک وہ فلیتہ میرے پاس رہا اور میں محلے کے لڑکوں کو دکھاتا رہا۔ میں اسکول میں داخل ہوگیا۔ بھائی جان کے ساتھ اسکول جانے لگا۔ میرے ہاتھ پاؤں کچھ ڈھیلے ڈھیلے تھے۔ کبھی بغل میں سے بستہ سرک جائے اورکبھی تختی پھسل جائے۔ کبھی میں گر پڑوں۔ چنانچہ بھائی میرا بستہ خود اٹھا لیتے اور انگلی پکڑ کر مجھے ساتھ چلاتے۔ جب میں نے سڑک پر جم کر پاؤں رکھنا سیکھ لیا تو بھائی جان نے اپنا بوجھ بھی مجھ پر لادنا شروع کردیا۔ اب ان کا بستہ بھی میں اٹھا کر لے جاتا تھا۔ کبھی ان کو اسکول جاتے ہوئے کچھ اور لڑکے مل جاتے تو یہ لمبے لمبے ڈگ بھرتے ہوئے مجھے پیچھے چھوڑ کر آگے نکل جاتے تو میں رو پڑتا اور روتے روتے ہی اسکول پہنچتا‘‘۔ برطانیہ کی اسکول بیگ بنانے والی کمپنی نے ایک انوکھی سوچ کو عملی شکل دے کر طالب علموں کو اس مصیبت سے نجات دلانے کی کوشش کی ہے، اس کمپنی نے ایک ایسا بیگ تیار کیا ہے جس میں پانی کی بوتل ، لنچ بکس اور کتابیں رکھنے کے علاوہ اس کے پہیوں کے ساتھ ایک ہینڈل بھی لگا ہوا ہے۔ بیگ کے ہینڈل کو کھینچ کر اوپر لے آئیں تو ایک قدم پیڈل پر رکھیں اور دوسرے پائوں سے زمین کو پیچھے دھکیل کر آگے بڑھتے چلے جائیں۔ اس عمل سے طالب علم نہ صرف اپنے بھاری بستے کو اسکول لے جانے میں کام یاب ہوجاتا ہے بل کہ اسے چلانے سے اسے تھکاوٹ بھی نہیں ہوتی، مگر یہ سب کچھ برطانیہ میں ممکن ہے، پاکستان میں نہیں۔ یہاں کی بے ہنگم ٹریفک،کیچڑ زدہ اور ناہموار رستے اس بستے کو چلانے والے بچے کو کسی بھی حادثے سے دوچار کر سکتے ہیں ۔ مگر کیا کیا جائے اب والدین کے دما غ میں بھی نئے نظام تعلیم نے یہ فکر پیدا کر دی ہے کہ گود میں پلنے والا بچہ جلد از جلد اسکول داخل کرانے سے شاید وہ زیادہ ذہین اور عقل مند بن جائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ جس بچے کو اپنی پیدائش کے بعد پانچ سال ماں کی گود سے گھر کی تہذیب وتمدن اور رسم ورواج سیکھنے اور سمجھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔وہ اب  بھاری بستے کے بوجھ تلے دب چکا ہے۔یوں والدین کو بھی ایک طرح کی آزادی حاصل ہو جاتی ہے اور وہ لوگوں کو یہ بتانے میں فخر محسوس کرتے ہیں کہ ان کا کمسن بچہ اسکول جانے لگا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ پانچ سال سے کم عمر بچوں پرکتابوں کابوجھ لادنا جہاں ان کی بنیادی نشوونما روک دیتا ہے، وہاں ان کو تعلیم سے بھی بے زار کردیتا ہے۔ اسپین کے طبی ماہرین نے اپنی تازہ تحقیق کی بنیاد پر کہا ہے کہ اسکول جانے والے بچوں کو اپنے وزن سے 10 فی صد سے بھی کم اسکول بیگ اٹھانے چاہیں۔ وہ بچے جو اپنے ذاتی وزن سے 10 فی صد زیادہ اسکول بیگ اٹھاتے ہیں انہیں کندھوں اور کمر درد کی تکلیف لا حق ہو جاتی ہے اور ان کے جسم بد ہیت ہوجاتے ہیں۔ مشقت اور ورزش میں یہ ہی فرق ہے کہ ورزش جسم کو بد ہیت نہیں ہونے دیتی جب کہ مشقت اس کے اُلٹ کام کرتی ہے۔ اسپین کے ماہرین نے 1403 طلبا پر تحقیق کی جن میں سے 12 سال سے 17 سال کی عمر کے 11مختلف اسکولوں کے بچوں کو شامل کیا گیا تھا۔ تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ جن بچوں کے اسکول بیگ کا وزن ان کے اپنے وزن کے 10 فی صد سے زیادہ تھا ان میں سے 66 فی صد بچے کمر درد کی تکلیف میں مبتلا پائے گئے۔ اس سروے کے مطابق اسکول کے بھاری بھرکم بستوں نے بچوں کو کمر کے علاوہ گردن کے درد میں بھی مبتلا کر دیا تھا، طبی ماہرین کے مطابق ایسے بستوں کی وجہ سے پندرہ سال تک کی عمر کے بچوں میں گردن کے درد کی تکلیف میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ایک بچہ تقریباً روزانہ بارہ کلو وزن اپنے کندھوں پر اْٹھاتا ہے جو ان کی ہڈیوں پر غیر ضروری دباؤ ڈالتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی کم عمری میں بچوں کا ان تکالیف میں مبتلا ہونا انتہائی خطرناک ہے۔ گذشتہ سال دسمبر 2013 میں پنجاب حکومت نے تعلیم کے شعبے میں تبدیلی لانے کے لیے صوبے میں ’’اسمارٹ اسکول سسٹم‘‘ متعارف کرانے کا فیصلہ کیا تھا جس کے تحت سرکاری اسکولوں کا تعلیمی کورس کو کتابوں کے بجائے’’آئی پیڈز‘‘ پر منتقل کیا جانا تھا۔ صوبائی حکومت نے کہا تھا کہ اگلے سال(2014) صوبے کے سرکاری اسکولوں میں اسمارٹ اسکول سسٹم کے تحت 12 لاکھ طالب علموں کو کمپیوٹر ٹیبلٹ فراہم کر دیے جائیں گے تاکہ وہ کورس کو ان پر ڈاؤن لوڈ کرلیں، اس طرح بچوں کو بھاری بھرکم بستوں سے نجات مل سکے گی۔ صوبائی وزیر تعلیم کا کہنا تھا کہ صوبے کے ہر اسمارٹ اسکول کے کمپیوٹرز کو ڈیجیٹل لائبریری سے منسلک کیا جائے گا جس سے سرکاری اسکولوں میں پڑھنے والے بچوں کو جدید ترین علمی سہولیات مفت حاصل ہو سکیں گی اور یکساں تعلیمی نظام بھی سامنے آئے گا ، لیکن ابھی تک ایسا ہوا نہیں اور نہ ہی کوئی امید نظر آتی ہے۔