|

وقتِ اشاعت :   December 11 – 2014

tariq muradیہ کیا طارق 24 گھنٹے فلم فلم فلم، تمھیں فلموں کے علاوہ اور کچھ نہیں آتا؟ نہیں جناب آرٹسٹ ہوں، وہ بھی اک چھوٹا سا آرٹسٹ، بس میری زندگی فلم آرٹ موسیقی اور کیا۔ کیا تم نے لینن کا نام سنا ہے؟ نہیں۔ کیا تم نے کارل مارکس کا نام سنا ہے؟ نہیں۔ کیا تم نے گاندھی کا نام سنا ہے؟ ہاں! کیا فلم تھی کیا اداکاری کی تھی سر بین کینگزلی نے واہ واہ اور کیا ڈائریکشن تھی رچرڈ اٹینبورو کی۔ اور آپ کو معلوم ہے اس فلم میں آج کے ہالی ووڈ کے مشہور ڈائریکٹر روب مارشل نے بطور ایکسٹرا اداکاری کی تھی اور موسیقی روی شنکر نے دی تھی۔ کیا بات ہے گاندھی فلم کی۔ یار میں نے گاندھی صاحب کی بات کی فلم کی نہیں۔ یہ چھوڑو! تم نے مارٹن لوتھر کنگ کا نام سنا ہے؟ نہیں میں نے نہیں سنا۔ ارے یاد آگیا سنا ہے سنا ہے بلکہ اچھی طرح سنا سے سنا ہے۔ شکر ہے ایک مشہور شخصیت کے بارے میں تو جانتے ہو۔ میں نے صرف ان کا نام سنا ہے، جانتا نہیں ہوں۔ مائیکل جیکسن کے ایک گانے میں… وہ کون سا گانا تھا جس کی شوٹنگ برازیل کے شہر ریو میں ہوئی تھی؟ ہاں یاد آگیا، گانے کے بول تھے They don’t care about us اس میں مائیکل جیکسن نے مارٹن لوتھر کنگ کا ذکر کیا تھا۔ لو کرلو بات، تمہیں گانوں اور فلموں کے علاوہ کچھ نہیں آتا۔ آج مارٹن لوتھر کنگ کے بارے پڑھ لینا۔ تمھیں بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا۔ چلو طارق، کمپیوٹر آن، سرچ مارٹن لوتھر کنگ۔ جب میں نے مارٹن لوتھر کنگ کو سرچ کیا تو سب سے پہلے کچھ انگلش جملے میرے کمپیوٹر اسکرین پہ نظر آئے۔ وہ جملے تھے I have a dream جب میں نے مزید سرچ کیا تو یہ پوری تقریر تھی جو مارٹن لوتھر کنگ نے 28 اگست 1963 میں واشنگٹن ڈی سی کے لنکن میموریل ٹاور میں 250,000 لوگوں کے سامنے کی۔ اس تقریر کا شمار امریکہ کی سب سے بہترین اورتاریخی تقریروں میں ہوتا ہے۔ جیسے جیسے میں یہ تقریر سن رہا تھا، امریکہ کے سیاہ فام فنکاروں کے عکس میری نظروں کے سامنے گھوم رہے تھے۔ کیا واقعی مارٹن لوتھر کنگ کی اس تقریر کے بعد نسل پرستی ختم ہونے لگی، کیا امریکی سیاہ فام فنکاروں کو وہ مقام ملا جو ملنا چاہیے؟ جب ہم اکیڈمی ایوارڈ پر ایک نظر ڈالتے ہیں تو حیران ہوکر رہ جاتے ہیں کہ اس ایوارڈ پر نسل پرستی کا کیا کام؟ اگر آج سیاہ فام فنکار ہالی ووڈ کی فلموں میں نہ ہوتے تو کیا ہالی ووڈ کو دنیا بھر میں سب سے بڑا مقام ملتا؟ شاید نہیں۔ 1929 میں شروع ہونے والا آسکر ایورڈ جو اکیڈمی ایورڈ کے نام سے مشہور ہے، جس بھی شخص کے حصے میں آئے وہ اپنے آپ کو فلمی دنیا کا بادشاہ سمجھنے لگتا ہے۔ آسکر ایورڈ اور امریکن سیاہ فام فنکار سب سے پہلے آتے ہیں بہترین مرکزی اداکاروں پر۔ 1929 سے 2013 تک صرف تین امریکن سیاہ فام فنکاروں کو یہ ایورڈ نصیب ہوا ہے۔ سب سے پہلے خوش نصیب اداکار تھے سڈنی پوئیٹیئر جن کو 1963 کی فلم ‘لِلیز آف دی فیلڈ’ کے مرکزی کردار پر اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ دوسرا ایوارڈ ذرا غور طلب ہے۔ 2001 میں ڈینزِل واشنگٹن کو فلم ‘ٹریننگ ڈے’ میں بہترین اداکاری پر یہ ایوارڈ نصیب ہوا۔ اس سلسلے کا تیسرا ایوارڈ جس سیاہ فام فنکار کو دیا گیا وہ جیمی فوکس تھے جنہیں 2004 کی فلم ‘رے’ میں یہ ایوارڈ نصیب ہوا۔ جی جناب یہ تینوں خوش نصیب اداکار ہیں جو 1929 سے 2013 تک مرکزی کرداروں پر آسکر ایوارڈ جیت چکے ہیں۔ نامزدگی مرکزی اداکار 1929 سے 2013 تک ڈینزل واشنگٹن اس ایوارڈ کے لیے 4 مرتبہ نامزد ہوئے ہیں، جبکہ مورگن فری مین 3 مرتبہ، سڈنی پؤٹیئر اور ول سمتھ 2 مرتبہ، جبکہ ایک مرتبہ نامزد ہونے والے مرکزی اداکاروں میں جیمز ارل جونز، پال ونفیلڈ، ٹیرنس ہاورڈ، فاریسٹ وہٹاکر، ڈیکسٹر گورڈن، شویٹیل ایجیوفر شامل ہیں۔ اکیڈمی ایوارڈ بہترین اداکارہ اس کیٹگری میں صرف 10 بہترین مرکزی اداکارائیں نامزد ہوئی ہیں۔ ان میں صرف ایک اداکارہ ہیلے بیری کو یہ ایوارڈ نصیب ہوا۔ ان کو2001 کی فلم ‘مانسٹرس بال’ میں بہترین اداکاری پر اس ایوارڈ سے نوازا گیا مگر وہپی گولڈ برگ جیسی اداکارہ کو اس اعزاز سے محروم رکھا گیا جنہوں نے اپنی فلموں میں دلکش اور جاندار اداکاری کا مظاہرہ کیا۔ میں زیادہ نہیں صرف 2 فلموں کی مثال دیتا ہوں۔ 1985 میں اسٹیون اسپیل برگ کی فلم ‘دی پرپل کلر’ جس کا شمار 1985 کی بہترین فلموں میں ہوتا ہے اور 1992 میں دوسری فلم ‘سسٹر ایکٹ’ جو دنیا کی 100 بہترین کامیڈی فلموں کی فہرست میں شامل ہے، اس فلم میں ایک گلوکارہ سے لے کر نند تک کامیڈی انداز اور شوخ و چنچل اداکاری سے شائقین فلم کو بڑی حد تک متاثر کیا مگر اس اداکارہ کو ایوارڈ کی جیت تو کجا نامزدگی بھی نہیں ملی۔ اکیڈمی ایوارڈ اور بہترین ہدایتکار یہ ایوارڈ اب تک کسی بھی سیاہ فام ہدایتکار کو نصیب نہیں ہوا۔ ہاں صرف تین سیاہ فام ہدایتکاروں کی نامزدگی عمل میں آئی جن میں فلم بوائز ان ہوڈ (1991) کے لیے جان سنگلٹن، پریشیس (2009) کے لیے لی ڈینیئلز، اور 12 ایئرز اے سلیو (2013) کے لیے سٹیو میک کوئین شامل ہیں۔ اکیڈمی ایوارڈ اور بہترین فلم اس کیٹیگری میں صرف ایک سیاہ فام پروڈیوسر کو یہ ایوارڈ نصیب ہوا وہ سٹیو میک کوئین کی فلم 12 ایئرز اے سلیو ہے۔ اس کے علاوہ چار پروڈیوسر نامزد ہوچکے ہیں۔ اکیڈمی ایوارڈ کے بہترین معاون اداکار بہترین معاون اداکاروں میں پہلے سیاہ فام 1998 میں لوئس گوسیٹ جونیئر فلم این آفیسر اینڈ اے جیٹلمین کے لیے قرار پائے۔ 1989 میں ڈینزل وشنگٹن کو فلم گلوری، 1996 میں کوبا گوڈنگ جونیئر کو فلم جیری میگوائر، جبکہ 2004 میں مورگن فری مین کو فلم ملین ڈالر بیبی کے لیے بہترین معاون اداکار کا ایوارڈ ملا۔ 1923 سے لے کر اب تک صرف 11 امریکی سیاہ فام معاون اداکاروں کی اس ایوارڈ کے لیے نامزدگی ہوئی۔ بہترین معاون اداکارہ اس کیٹگری میں صرف 6 اداکارائیں یہ ایوارڈ جیت چکی ہیں۔ 1939 میں ہیٹی میک ڈینیئل کو فلم گون وِد دی ونڈ میں، 1990 میں ووپی گولڈ برگ کو فلم گھوسٹ میں، 2006 میں جینیفر ہڈسن کو فلم ڈریم گرل میں، 2009 میں مونیک کو فلم پریشیس میں، 2011 میں اوکٹیویا اسپینسر کو فلم دی ہیلپ میں اور2013 میں لوپیتا نیونگو کو فلم 12 ایئرز اے سلیو میں اپنے کردار کے لیے اس ایوارڈ سے نوازا گیا۔ اکیڈمی ایوارڈ اور بلیک ریل ایوارڈ اکیڈمی ایوارڈ کے مقابلے میں سال 2000ء میں ایک اور ایوارڈ دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا، جو بلیک ریل ایوارڈ کہلاتا ہے، اور صرف سیاہ فام فنکاروں کے لیے ہوتا ہے۔ اس تقریب سے آمدنی ان غریب فلم فنکاروں کی فلم ٹریننگ پر خرچ کی جاتی ہے، جو بڑی بڑی اکیڈمیز کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے۔ اگر آج امریکی صدر سیاہ فام بارک اوبامہ نہیں ہوتے تو کیا 1963 میں پہلے سیاہ فام آسکر ونرسڈنی پوئیٹیئر کو 2009 میں پریزیڈنشل میڈل آف فریڈم ملتا؟ یہ تو ہالی وڈ کی فلموں کی بات تھی، تو کیا مارٹن لوتھر کنگ کی عوامی تقریر اس آسکر ایوارڈ کے نیچے دب تو نہیں گئی؟ اور رہا سوال میرا، میں تو ایک آرٹسٹ ہوں جو بلوچی شارٹ فلمز، ڈاکومینٹری فلمز، یا بلوچی زبان پہ تھیٹر کرتا رہتا ہوں۔ وہ تو مارٹن لوتھر کنگ تھے جنہوں نے کہا I have a dream مگر میں تو یہ کہوں گا کہ We have a dream.