|

وقتِ اشاعت :   December 13 – 2014

آئے دن عمران خان اور اس قماش کے سیاستدان یہ کہتے نہیں تھکتے کہ احتجاج کرنا ان کا حق ہے۔ تحریک انصاف کے اکثر رہنما اس حق میں سڑکوں کو بند کرنا بھی شامل کرتے ہیں۔ احتجاج کا معاملہ پارٹی اور حکومت کے درمیان ہے، عوام ریفری ہیں۔ پارٹی کے کارکن اور حمایتی کوئی احتجاج کریں تو کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہونا چاہئے۔ جب احتجاج رجسٹرڈ ہوجائے تو اس کو ختم ہوجانا چاہئے۔ مگر تحریک انصاف اور کچھ دوسرے لیڈر احتجاج کو اس وقت تک مکمل نہیں سمجھتے جب تک پورا شہر بند نہ ہو۔ مسلح کارکن ہر اس دکان اور چلتی ہوئی گاڑی پر حملہ آور ہوتے ہیں جو احتجاج میں شامل نہیں ہوتے۔ جتنا زیادہ توڑ پھوڑ ہوگا اتنا ہی زیادہ احتجاج کامیاب ہوگا۔ ٹی وی کیمرہ کی آنکھ نے دکھا دیا کہ ڈنڈا بردار کس طرح دکانوں اور چلتی گاڑیوں پر ٹوٹ پڑے اور پورے زندہ شہر کو قبرستان کی خاموشی میں تبدیل کردیا۔ پاکستان کی سیاسی پارٹیوں اور دوسری تنظیموں کو چائیے کہ وہ صرف اور صرف شائستہ احتجاج کو اپنائیں اور عوام الناس کو تکلیف نہ دیں بلکہ غریبوں اور دکانداروں کے معاشی مفادات کو نقصان نہ پہنچائیں۔ ویسے بھی سڑک بند کرنا قانوناً جرم ہے۔ ٹریفک کی روانی برقرار رکھی جائے اور ہر اس آدمی کو گرفتار کیا جائے جو ٹریفک کی روانی میں خلل ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ یا اس لیڈر کو گرفتار کیا جائے جو کارکنوں اور حمایتیوں کو سڑکیں اور دکانیں بند کرنے پر اکساتا ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ وہ خودکو حقوق اور مفادات کا نگہبان سمجھتے ہوئے ہڑتال کی کال دیتے ہیں اور لوگوں سے برملا کہتے ہیں کہ پورے پاکستان کو بند کریں کیونکہ ان کا اختلاف حکومت سے ہے۔ ان کے اور حکومت کے درمیان اختلافات کا عوام اور عوامی مفادات سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ یہ پارٹیاں اور جعلی رہنماء کھلے میدان میں جائیں، وہیں اپنا جلسہ کریں، احتجاج کریں اور معمولات زندگی میں خلل نہ ڈالیں اور لوگوں کو پریشان نہ کریں۔ ان کا حق صرف اتنا ہی ہے۔ سڑکوں اور دکانوں کو بند کرنا ان کے سیاسی حقوق میں شامل نہیں ہیں بلکہ ان کے جرائم میں شامل ہیں۔ لہٰذا تمام پارٹیوں اور احتجاج کرنے والے رہنماؤں اور تنظیموں کو چاہئے کہ وہ روز مرہ کے معمولات میں حارج ہوئے بغیر اپنا احتجاج شائستہ طریقہ اور شائستہ زبان میں ریکارڈ کرائیں تاکہ ان کی عوامی حمایت میں اضافہ ہو۔ فیصل آباد میں ہلڑ بازی کے دوران اربوں روپے کا نقصان ہوا، کروڑوں کام کے گھنٹے ضائع ہوگئے۔ جلسہ ہوا جس میں صرف اور صرف بد زبانی کی گئی۔ ہلڑ بازی اور شائستہ احتجاج کے درمیان فرق واضح ہوجانا چاہئے۔ عمران خان نے وزیراعظم اور فوری طور پر وزیراعظم بننے کا خواب دیکھنا بند کردیا ہے۔ اب وہ نوازشریف کے استعفیٰ کا مطالبہ نہیں کررہا اور نہ ہی نظام کی تبدیلی چاہتا ہے۔ وہ گھر واپس جانے کے لئے اچھے رستے کی تلاش میں ہیں کہ اس کی عزت سادات محفوظ ہو۔ حکومت کو عمران خان کی اس معاملے میں مدد کرنی چاہئے کہ وہ عزت نفس کو محفوظ رکھتے ہوئے سیاسی منظر نامے سے غائب ہوجائے۔ اس پر حکومت کو اعتراص نہیں ہونا چاہئے۔