|

وقتِ اشاعت :   December 24 – 2014

اسلام آباد: وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ لاتعداد چھوٹی چھوٹی تنظیموں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں اس صورتحال میں لولے لنگڑے فیصلوں کے بجائے مضبوط اقدامات سے ہی قوم مطمئن ہوگی۔ وزیر اعظم ہاؤس اسلام آباد میں وزیر اعظم کی سربراہی میں قومی پارلیمانی جماعتوں کے قائدین کا اجلاس جاری ہے جس میں ملک کی اعلیٰ سیاسی قیادت کے علاقہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر بھی شریک ہیں۔ اجلاس کے دوران انسدادِ دہشت گردی کے پالیسی کو حتمی شکل دینے کے لئے مختلف تجاویز پر غور کیا جارہا ہے۔ اجلاس کے آغاز پر وزیراعظم کا کہنا تھا کہ پاکستان کی غیر معمولی صورت حال غیر معمولی اقدامات کا تقاضا کرتی ہے، لاتعداد چھوٹی چھوٹی تنظیموں نے ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھا رکھے ہیں۔  پشاور کا واقعہ پوری دنیا کے لئے ایک المیہ ہے، کب تک یہ لوگ قوم کے بچوں، معصوم شہریوں اور سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کو مارتے رہیں گے۔ مجرموں کو سزا ملنے پر ہی قوم مطمئن ہوگی۔ ہم نے کمزور اقدامات اٹھائے تو قوم قبول نہیں کرے گی، پاکستان نے اس جنگ میں اب تک بھاری قیمت چکائی ہے، اس سے ہماری معیشت پر بھی کافی بوجھ پڑا ہے، دہشتگردی کینسر جیسی بیماری ہے جس کا علاج نہ کیا تو تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی۔ وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ہمیں ان کے خلاف سخت فیصلہ کرنا ہوں گے جو پاکستان کو جڑ سے ختم کرنا چاہتے ہیں، جو قوم کے نونہالوں کو قتل کررہے ہیں کیونکہ ان کے دلوں میں رحم نہیں بلکہ پتھر ہیں، اس موقع پر لولے لنگڑے فیصلوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ اس سے پہلے ہم نے کبھی فیصلہ کن جنگ نہیں لڑی لیکن اب ہم نے فیصلہ کن جنگ کا آغاز کیاہے، اس سے پہلے ہم نے مذاکرات کے ذریعے بھی معاملات حل کرنے کی کوشش کی۔ کراچی ایئرپورٹ پر حملے کے بعد ضرب عضب کا فیصلہ ہوا اور اس سلسلے میں بھی پہلے مشاورت کی۔ اس آپریشن کی کارروائیاں انتہائی مثبت رہی ہیں۔ ضرب عضب ناصرف شمالی وزیرستان میں جاری ہے بلکہ اس سلسلے میں ہم افغان حکام سے بھی مسلسل رابطے میں ہیں۔ وزیراعظم  نے کہا کہ اجلاس میں شریک تمام جماعتوں کے سامنے ملک کی موجودہ صورتحال اور سانحہ پشاور کا المناک واقعہ ہے، خدانخواستہ اس قسم کے دوسرے واقعات بھی ہوسکتے ہیں اگر ہم نے اس وقت صحیح فیصلے نہ کئے تو اس کا بوجھ ملک کی تمام سیاسی قیادت پرآئے گا۔ ہمیں اپنے خدشات کو مل کر ختم کرنا ہوگا۔ ایک ضرب عضب شمالی وزیرستان میں ہورہی ہے تو دوسری ضرب عضب ان عناصر کے خلاف بھی ہونی چاہیے جو ملک کے اندر بیٹھ کر ہی وطن عزیز کو غیر مستحکم کررہے ہیں اور دہشتگردوں کی سوچ سے مطابقت رکھتے ہیں۔