|

وقتِ اشاعت :   December 31 – 2014

آپ ملامہ یوسفزئی سے کبھی ملیں ہیں؟ اس بچی کے سوال سے مجھے چوکنا کردیا ہے۔آپ ملالہ یوسفزئی کو جانتی ہیں؟ میں نے آٹھویں جماعت کی طالبہ کے سوال کا جواب دینے کی بجائے الٹا اس سے سوال کردیا۔جی ہاں میں اسے جانتی ہوں، میں بڑی ہوکر ملالہ بننا چاہتی ہوں، وہ میری آئیڈیل ہیں۔ ماریا نے جواب دیا۔آپ ملالہ کے بارے میں اور کیا جانتی ہیں؟ میرا تجسس مزید بڑھتا گیا۔وہ ایک بہت بہادر لڑکی ہے، بچوں کی تعلیم کی بات کرتی ہے، اسے امن کا نوبل انعام بھی ملا ہے۔ ماریانے یہ بتا کر مجھ سے پوچھا کہ آپ یہ بتائیں کہ اتنی اچھی لڑکی کو طالبان کیوں مارنا چاہتے تھے؟ جواب میں مجھے ماضی کے اوراق گردانے پڑے اور پشاور آرمی پبلک اسکول سمیت کچھ دیگر واقعات کا بھی ذکر کرنا پڑا۔ماریا سے میرا سامنا کاریتاس جرمنی کے زیر اہتمام شام اور عراق کے پناہ گزین افراد کی امداد کے لیے شروع کیے گیے فلاحی پروگرام کے تحت مختلف اسکولوں کے طالب علموں کو آگہی فراہم کرنے کے سلسلے میں منعقدہ سینیمار سے خطاب کے دوران ہوا۔سیمینار کے بعد بھی ماریا اور اس کی سہیلیاں کافی دیر تک مجھ سے ملالہ یوسفزئی، سانحہ پشاور اور سوات کی تباہ شدہ اسکولوں اور طالب علموں کو درپیش مسائل کے بارے میں پوچھتی رہیں۔سیمینار کے دوران تمام افراد نے مجھ سے اظہار یکجہتی کی اور پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں ہونے والے حملے کی بھرپور مذمت کی۔اور کیوں نہ کرتے کہ ابھی چند ہی دن گزرے تھے کہ ملالہ یوسفزئی کو ناروے کے شہر اوسلو میں امن کا نوبل انعام دیا گیا تھا۔اس دن بھی ملالہ نے تعلیم کے فروغ اور ہر بچے کو تعلیم فراہم کیے جانے کے حق میں بات کی تھی۔اس سوچ کو تقویت دینے کی وکالت کی تھی۔بچوں کو تعلیم سے روکنے، انہیں اسکولوں سے دور رکنے، اسکول بند کرنے اور اس طرح کے دیگر منفی خیالات کی مخالفت کی تھی۔ملالہ کو ملنے والا امن کا نوبل انعام ملک اور اس کے شہریوں کے لیے خوشی کا پیغام تھا۔بڑے عرصے بعد عالمی سطح پر پاکستان کی نیک نامی ہوئی تھی۔ملک کے شہریوں کو گھٹن کے اس ماحول میں سکون کی چند ساعتیں نصیب ہوئی تھیں۔چند دنوں کے لیے ہی سہی، پاکستان کو دہشتگردی پھیلانے والا ملک کہنے والوں کی زبانوں میں تالے لگ گئے تھے۔مگر چند دن بعد ہی یہ تاثر پشاور کے کڑوے اور دور رس واقعے کی گونچ سے زائل ہوگیا اور رہی سہی کسر تحریک طالبان پاکستان کی جانب سے پشاور حملے کی ذمہ داری قبول کرنے نے دور کردی۔پھر کیا تھا، دنیا بھر کی میڈیا تھی، پشاور کا آرمی پبلک اسکول تھا، طالبان تھے اور پاکستانی عوام کا سوگ تھا۔دن بھر یہ خبر شہ شرخی کے ساتھ عالمی میڈیا پر چھائی رہی، اس پر تجزیے اور تبصرے نشر ہوئے، اگلے دن کے اخبارات میں یہ خبر بھرپور انداز میں شائع ہوئی، ادارئیے لکھے گیے۔طالبان کی جی بھر کی مذمت کی گئی، پاکستان پر طالبان کے خلاف کھل کر جنگ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا، اچھے اور برے طالبان کی تفریق ختم کرنے پر زور دیا گیا۔وزیر اعظم نواز شریف فوری طور پر پشاور پہنچے، اگلے دن ایک اہم اجلاس طلب کیا گیا اور کچھ اہم فیصلے بھی ہوئے۔ سب سے اہم فیصلہ اسپیشل ٹریبینولز کا قیام تھا۔فوجی افسران کی سربراہی میں بننے والے ان اسپیشل ٹریبینولز کے قیام کے لیے آئین میں ترامیم کا بھی فیصلہ کیا گیا۔رپورٹس لے مطابق اس سلسلے میں تیار کیے جانے والے مجوزہ ایکشن پلان پر عمل درآمد کے لیے مجوزہ طور پر آرٹیکل 212 کی شق 5 اور 256 کی شق 8 میں ترمیم کی جائے گی۔اس ترمیم کو22ویں آئینی ترمیم کہا جائے گا۔اسپیشل ٹربیونلز کے سربراہ متعلقہ سروسز چیفس مقرر کریں گے۔آرمی ،نیوی ،فضائیہ کے ایکٹ میں بھی ترمیم کی جائے گی۔ذرائع کے مطابق دہشتگردوں کے پاس اپیل کا حق بھی نہیں ہو گا۔ دہشتگردی کے ملزموں کے بنیادی حقوق ختم ہو جائیں گے۔کوئی دہشتگرد بنیادی حقوق کا دعوی ٰنہیں کر سکے گا۔سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کے کام میں مداخلت نہیں ہو گی۔نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم تنظیموں کا راستہ بھی روکا جائے گا۔ میرکیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں۔ اس پوری تمہید کے بعد سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا موجودہ سیاسی قیادت کو ملک میں موجود عدالتی نظام پر کوئی اعتماد نہیں ہے؟ ملک میں ہر وقت جمہوریت کا ڈھول پیٹنے والی سیاسی جماعتوں کو کیا سوجی کے انہوں نے فوری طور پر اپنے تمام اختیارات فوجی جنتا کے سپرد کردئیے۔کیا سیاسی جماعتوں نے اس بات کی تسلی کرلی کہ ان خصوصی عدالتوں کے قیام سے کسی بے گناہ شخص کو سزا نہیں ملے گی؟ اس بات کی یقین دہائی کیا لے لی گئی ہے کہ ملک بھر خصوصا بلوچستان سے لاپتہ کیے جانے والے افراد کو ان خصوصی عدالتوں میں پیش کرکے ان کے کیسز کو نمٹا کر انہیں انصاف فراہم کیا جائے گا ؟ سوال تو یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان عدالتوں میں لوگوں کو لاپتہ کرنے والوں کے کیسز بھی پیش کیے جائیں گے؟ ملک میں دہشتگردی کا شکار صحافی برادری بھی ہے۔اسی مناسبت سے سوال یہ بھی بنتا ہے کہ ان خصوصی ٹریبیونلز میں شہید ہونے یا قتل کیے جانے والے صحافیوں کے کیسز بھی پیش ہوسکیں گے؟ اور کیا ان مقدمات میں ملوث بااثر افراد، تنظیموں، اداروں یا جماعتوں کے کارکنوں ، افراد، رہنماؤں کے خلاف مقدمات چلائے جائیں گے؟ اور کیا ان ٹریبیونلز یا عدالتوں میں سیاسی کارکنوں کی بجائے صرف دہشت گردوں کو ہی سزا دی جائے گی ؟