|

وقتِ اشاعت :   January 23 – 2015

ferozہم اس مقولے پر غور کریں کہ\”صحت سب سے بڑی نعمت ہے\”تو اس حقیقت سے کسی کو انکار نہیں ،مگر اس کے برعکس بلوچستان کے غریب عوام حکومتی نااہلی کے باعث اس نعمت سے ہمیشہ سے محروم ر ہے ہیں۔ وفاق اور ہر نئی صوبائی حکومتوں سے یہ سنُنے کو ملتا ہے کہ ہم صوبے کے لوگوں کی تمام محرومیوں کو جلد دور کرینگے۔ صوبے کے عوام کو تمام بنیادی سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائیں گئے ۔لیکن آج تک ایسا نہیں ہوسکایعنی مرزا اسد اللہ خان غالب کے اس شعر کے مصداق کہ ؛بس کے دشوار ہے ہر کام کا آسان ہونا۔۔ آدمی کو بھی میسر نہیں انسا ں ہونا\” ؂ہمیشہ بلوچستان کے عوام دیگر شعبوں کی طرح صحت جیسی بنیادی سہولیت سے محروم رہے ہیں ۔صوبائی حکومت نے غریب عوام کو صحت کے تاجروں کے رحم وکرم پرچھوڑدیا ہے اور صوبائی بجٹ میں اس شعبہ کیلئے رقم مختص کرنے کو ہی اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے لیکن اس پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کیلئے سرگرم نظر نہیں آتی ۔ بلوچستان کی موجودہ صوبائی حکومت نے اپنے پہلے سال کے بجٹ میں صحت کے شعبہ کو اپنی ترجیحات میں رکھتے ہوئے اس شعبے کیلئے 15233.578ملین روپے مختص کئے ، جو 2011-12کے بجٹ کے مقابلے میں 37فیصد زیادہ تھا ۔صوبے میں تین نئے میڈیکل کالجز اور کوئٹہ میں پنجاب حکومت کے تعاون سے امراض قلب کا سینٹر قائم کرنے کے منصوبے صرف اور صرف وعدوں اور بجٹ کی کا غذئی کاروائی تک محدود رہے۔2013-14کے بجٹ میں عوام کو ادویات کی مفت فراہمی کیلئے 1126.026ملین روپے مختص کئے گئے تھے اور اس بات پر بھی زور دیا گیا تھا کہ ضرورت پڑنے پر اس میں مزید اضافہ کیا جائیگا لیکن اس کے برعکس صوبے کے عوام کو ادویات کیحصول کے لیے سرکاری ہسپتالوں اور متعلقہ اداروں میں چکر کاٹ کاٹ کر اپنی توانائی اور وقت کو ضایع کرنے کے علاوہ کچھ نہ ملا۔ 2013-14کے بجٹ میں گذشتہ بجٹ کی طرح عوام کو اس بات کی بھی یقین دہانی کرائی گئی تھی کہ صوبے میں موجود تمام ہسپتالوں میں خراب مشینری کی مرمت اور طبی آلات کی کمی کو دور کرنے کیلئے ایک ارب روپے کی خطیر رقم مختص کرکے اس پر عمل درآمد کیا جائیگا جوصرف اور صرف بجٹ کی تقریر تک محدود رہی۔اور صوبے کے عوام کو آج بھی صحت کی بنیادی سہولیات کی حصول کیلئے دیگر صوبوں کا رخ کرنے پر مجبور کیا گیا ۔ موجود صوبائی حکومت اپنے دوسرے سالانہ بجٹ یعنی 2014-15 میں اس شعبہ کے غیر ترقیاتی بجٹ میں 14.148بلین روپے مختص کئے اور صحت کے شعبہ میں کام کرنے والے MNCH پروگرام کے تحت زچگی سے متعلق ایمرجنسی اور علاج کی سہولیات کو مزید 14اضلاع میں فعال کرنے کا وعدہ کیا گیاجس کی کارکردگی کی رپورٹ نیچے موجود ہے ۔2014-15 کے بجٹ میں صوبے کے سرکاری ہسپتالوں اور مراکز صحت میں مفت ادویات کی فراہمی کیلئے 1.214بلین روپے رکھے گئے لیکن اس کے برعکس صوبے کے غریب عوام آج بھی اس حکومتی پیکج اور وعدوں سے محروم نظر آتی ہیں اس کا برملا عتراف صوبائی وزیر صحت بھی کرچکے ہیں اور اس مافیاکے سامنے بے بس دکھائی دیتے ہیں .صوبائی وزیر صحت کے مطابق صوبے میں ایک ایسا مافیاسر گرم ہے۔جو سرکاری ہسپتالوں میں عوام کا حق مفت ادویات کی شکل میں لوٹ رہا ہے جس کی وجہ سے غریب عوام صحت کے ساتھ ساتھ مفت ادویات سے بھیمحروم ہیں ،۔دوسری جانب محکمہ صحت میں کام کرنے والے اپنے کواس مبارک پیشے سے بالاتر سمجھتے ہیں اور وہ اپنے کو صحت کے شعبے میں کاروبار کرنے والے اور منافع خوروں کے ہاتھوں میں کٹھ پتلی کی مانند نظر آتے ہیں۔ صوبے کے دارلحکومت کوئٹہ میں اس کاروبار سے منسلک افراداور ہر چورائے میں ان کی مارکیٹیں دکھائی دیتی ہیں جس سے غریب عوام نہ چاہتے ہوئے بھی بہت کچھ خریدلاتے ہیں ۔صحت کے شعبہ میں کام کرنے والے اداروں کی رپورٹ کے مطابق 2013-14کے دوران نوزائدہ بچوں کی شرح اموات میں ہر 1000 بچوں میں سے 63بچے اور زچگی کے دوران ہر 1000 بچوں میں سے 786بچے حکومت اور نام نہادسماجی بہودکے نام پر کام کرنے والے اداروں کی غفلت کی نذر ہو جاتے ہیں آٹھ سال تک کے بچوں کی شرح اموات 9.0فیصد رہی یعنی ہر 1000 میں سے 111بچےٍ زندگی کی بازی ہارجاتے ہیں ۔ 2014ء میں21بچے پولیو جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہوئے۔ موجودہ حکومت کی ترجیحات کا انداز اس بات سے بخوبی لگا یاجاسکتا ہے کہ اس دو سال میں صوبے میں کوئی نیا ہسپتال قائم نہ ہوسکا۔ اور صوبے میں بہتر صحت کے دعوے داروں کی کارکردگی کا اندازہ اس بات سے بھی لگا یا جاسکتاہے کہ 1998ء کی مردشماری کے مطابق 80لاکھ کی آبادی والے صوبے میں 4116 بیڈز اور49ہسپتال اورپورے صوبے میں 3867ڈاکٹر ز صحت کے شعبے میں بہتری کیلئے سرگرم ہیں اس بات پر آپ کو یقیناًحیرانی ہوگی کہ ان میں سے 70فیصد ڈاکٹرز صوبے کے دارالحکومت (کوئٹہ) میں اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں اور صوبے کے دور داز علاقوں میں کام کرنے کو تیار نہیں جس کا خمیاز ہ عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ہر باشعور شخص اس بات کا انداز لگا سکتاہے کہ اگر ہسپتالوں میں ڈاکٹرزاور طبی عملہ موجود نہ ہوگا تو مریضوں کا کون پر سان حال ہوگا۔ صوبے کے عوام یقیناًصحت کی سہولیات سے محروم تو ہیں ہی جبکہ اس شعبہ کے باعث مہلک امراض کی روک تھام کیلئے کوئی بھی خاطر خواہ اقدامات نہیں اُٹھائے جارہے ۔ صوبے میں سرجیکلزا ور دیگر ایکویمپنٹ کی اسٹیلائزیشن کے بغیر بار بار استعمال کی روک تھام کیلئے تدابیر نہ ہونے کے برابر ہیں۔ پورے صوبے میں صرف ایک اسٹیلائزیشن سینٹر ہے جو بولان میڈیکل کمپلیکس میں فعال ہے جہاں شہر بھر کے اسپتالوں کے فضلا جات کو تلف کیا جاتا ہے جہاں تقریباً 20سے 30فیصد ویسٹ میٹیریل اسٹیلائزیشن کیلئے پہنچتا ہے۔ باقی خفیہ طور پرری سائیکلینگ کے ذریعہ دوبارہ استعمال کے قابل بناکرمارکیٹ میں فروخت کیا جاتا ہے کوئٹہ سمیت صوبے کے صرف سترہ اضلاع میں روزانہ آنے والے آؤٹ ڈورپیشنٹس کی تعداد9400ہے جبکہ مریضوں کے مقابلے میں دستیاب ڈاکٹر ز اور دیگر طبی عملہ کی تعداد انتہائی کم ہے۔ صوبے میں میڈیکل سہولیات کی کمی کے باعث اور خاص طور پر صوبے کے دور دراز علاقوں میں بیشتر اموات غربت اور طبی سہولیات کی عدم فراہمی کے باعث ہوتی ہیں ان میں سے زیادہ تعداد خواتین اور بچوں کی ہے ۔بلوچستان کے دور دراز علاقوں میں صحت کی صورت حال ابتر ہے اورسہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ،اور بدقسمتی سے جوسہولیات موجود بھی ہیں وہ صحت کے معیار کے مطابق نہیں ہیں۔اس کابخوبی اندازہ ہم درج ذیل پورٹ سے لگا سکتے ہیں ۔رپورٹ کے مطابق صوبے کے32اضلاع میں سرکاری اور نجی ہسپتال اور مراکز صحت کی تعداد کچھ اس طرح سے ہیں ۔کوئٹہ میں آٹھ سرکاری اور 76نجی ہسپتالوں میں 4585بیڈ 15مرکز صحت کے مراکز،،پشین 04ہسپتالوں میں 65بیڈ اور 11مراکز صحت ،قلعہ عبداللہ میں 03ہسپتالوں میں 64بیڈ اور 10مراکز صحت ،چاغی 01ہسپتال میں 70بیڈ اور 14مراکز صحت ،نوشکی میں 02ہسپتالوں میں 62بیڈ اور 15مراکز صحت ، ژوب میں 02ہسپتالوں میں 114بیڈ اور 16مراکز صحت ، لورالائی میں 02ہسپتالوں میں 256بیڈ اور 47مراکز صحت ، قلعہ سیف اللہ میں 07ہسپتالوں میں 105بیڈ اور 16مرکز صحت ، شیرانی میں 01ہسپتال میں 25بیڈ اور 07مرکز صحت،ماشکیل میں 01ہسپتال میں 25بیڈ 15مرکز صحت کے مرکز،مکران میں 01ہسپتال میں 10بیڈ اور 09مرکز صحت ،قلات میں 02ہسپتالوں میں 90بیڈ اور 43مرکز صحت ،خاران میں 02ہسپتالوں میں 64بیڈ اور 11مرکز صحت،خضدار میں 03ہسپتالوں میں 120بیڈ اور 29مرکز صحت،مستونگ میں 02ہسپتالوں میں 40بیڈ اور 06مرکز صحت ،آواران میں 01ہسپتال میں 14بیڈ اور 15مرکز صحت ،واشک میں 01ہسپتال میں 24بیڈ اور 12صحت کے مرکز ، لسبیلہ میں 04ہسپتالوں میں 100بیڈ اور26مرکزصحت ،سبی میں 02ہسپتالوں میں 116بیڈ اور 17مرکزصحت،زیارت میں 01ہسپتال میں 14بیڈ اور 08مرکزصحت ،ڈیرہ بگٹی میں 02ہسپتالوں میں 32بیڈ اور 27مرکزصحت ،کوہلومیں 01ہسپتال میں 35بیڈ اور 33مرکزصحت ،ہرنائی میں 01ہسپتال میں 30بیڈ اور 10مرکز صحت ،نصیر آباد میں 01ہسپتال میں 20بیڈ اور 10مراکزصحت ، جعفرآباد میں 03ہسپتالوں میں 190بیڈ اور 35مرکز صحت، جال مگسی میں 01ہسپتال میں 22بیڈ اور 16مرکز صحت ،کیچی/بولان میں 04ہسپتالوں میں 112بیڈ اور 17مرکز صحت ،کچ/تربت میں 09ہسپتالوں میں 189بیڈ اور 42مرکز صحت،گوادر میں 03ہسپتالوں میں 68بیڈ اور 15مرکز صحت ،پنجگور میں 02ہسپتالوں میں 44بیڈ اور 13مرکز صحت کام کررہے ہیں۔اس پورٹ سے ہمیں اس بات کی تو سمجھ آ جاتی ہے کہ اس شعبہ میں سرکار کے مقابلے میں کاروباری حضرات زیادہ مضبوط اور زیادہ متحرک نظر آتے ہیں۔ بلوچستان کے غریب عوام سرکاری ہسپتالوں اور صحت کے مراکز میں آئے روز کی ہڑتالوں اور بائیکاٹ سے ذہنی کوفت کا شکار ہیں اور صوبائی حکومت ہمیشہ کی طرح بیان بازی اوروعدوں تک محدود رہتی ہے۔ یوں تو گاہے بہ گاہے صوبائی وزیر صحت مختلف ہسپتالوں کا دورہ کرتے رہتے ہیں۔اس دوران کچھ لمحات کیلئے ہسپتال کا منظر کسی بھی انسان کیلئے اُس خوفناک منظر سے مختلف نظرنہیں آتاہے کہ جب کسی کو 1200سوواٹ کا کرنٹ لگتاہے یعنی گھومتے کپکپاتے اور توبہ کرتے نظر آتاہے لیکن اس کرنٹ کی شدت ختم ہوتے ہی اپنے عادت سے مجبور دکھائی دیتے ہیںیعنی رات گئی تو بات گئی۔ دورے کے بعد ہمیں ہسپتال اُس گرڈ اسٹیشن سے مختلف نظر نہیں آتاجہاں کبھی بجلی روشن ہی نہ ہو ۔ دوسری جانب موجودہ حکومت کو یہ کریڈٹ جاتاہے کہ اس نے اسپتالوں کی صورتحال کا اور وہاں ڈاکٹرز اور طبی عملے کی غیر حاضری کا نوٹس لیا مگر اب بھی اس حوالے سے کافی بہتری کی ضرورت ہے ۔ بلوچستان میں صحت کا شعبہ اس لیے اہمیت کا حامل ہے کیونکہ اس شعبے کے داتا قوم پرست صوبائی حکومت کے اُس جماعت سے ہیں جس کے صوبے میں موجود اپوزیشن اور حکومت میں شامل ایک پارٹی اسے جمہوریت نہیں بادشاہت کہتے نہیں تھکتے ویسے تو جمہوریت میں تمام شعبے وزیر اعلیٰ کی کارکردگی کی نویدسناتے ہیں لیکن جب وزیر اعلیٰ اورصوبائی وزیر کا تعلق ایک ہی جماعت سے ہو تو اس سے صوبے کے عوام کی امیدیں زیادہ وابستہ ہوجاتی ہیں اور اگر عوام کی امید یں پوری نہ ہوں تو موجودہ پارٹیز کو گزشتہ حکومت کی بر سراقتدار پارٹی (پیپلزپارٹی)سے سبق سیکھنا ہوگاجس کاموجود ہ دورحکومت میں صوبے کے ایوانوں میں کوئی نام و نشان ہی باقی نہیں ۔