|

وقتِ اشاعت :   January 31 – 2015

اس بار سندھ کے ایک مرکزی شہر کو دہشت گردوں نے نشانہ بنایا۔ اس دہشت گردی میں ابتک کے معلومات کے مطابق 60سے زائدافراد ہلاک اور 50سے زائد شدید زخمی ہوئے ہیں۔ دہشت گردوں نے لکھی در میں امام بارگاہ کو اس وقت نشانہ بنایا جب مسلمان جمعہ کی نماز ادا کررہے تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق لوگ صف بندی کررہے تھے کہ اس وقت زور دار دھماکہ ہوا جس سے پورا شکار پور شہر لرز اٹھا۔ ارد گرد مکانات اور دکانوں کے شیشے ٹوٹ گئے اور پورے شہر میں زبردست خوف طاری ہوگیا۔چونکہ ریاستی اہلکاروں کی تعداد کم ہے اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے انتظامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ اس لئے مقامی لوگوں نے راحت کاری کی کارروائی دھماکے کے فوری بعد شروع کی۔ سرکاری اہلکاروں کے جائے وقوعہ پہنچنے کا انتظار نہیں کیا۔ زخمی حضرات کو اسپتال پہنچایا۔جن میں اکثریت سنی فرقے اور ہندو تھے راحت کاری میں حصہ لے کر یہ ثابت کیا کہ وہ فرقہ واریت پر یقین نہیں رکھتے اور اس طرح سے اپنے عمل سے فرقہ وارانہ دہشت گردی کی مذمت کرتے رہے۔ ابھی تک یہ معلوم نہ ہوسکا تھا کہ یہ خودکش حملہ تھا یا بم کو اس جگہ پہلے ہی نصب کیا گیا تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں ہلاکتوں سے یہ شک زیادہ زور پکڑ رہا ہے کہ دہشت گرد خودکش بمبار تھا اور اس نے شیعہ مسلمانوں کو اس وقت نشانہ بنایا جب وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مصروف تھے۔ ابھی تک کسی بھی شخص یا تنظیم نے اس دھماکے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ اکثر اوقات یہ دیکھا گیا ہے کہ بڑی تعداد میں ہلاکتوں کے بعد فرقہ پرست دہشت گرد ایسے واقعات کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے یا ایسے تنظیم کا نام استعمال کرتے ہیں جس کے متعلق لوگوں کو معلومات نہیں ہوتیں۔ بہر حال یہ دہشت گردی کی کارروائی انسان دشمن، ملک دشمن کارروائی ہے۔ اس کا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں ہوسکتا کہ ملک کو مکمل انارکی کی طرف دھکیلا جائے اور عدم استحکام کی صورت حال پیدا ہو۔ ورنہ ملکی صورت حال کے پیش نظر لوگ اپنے تمام اختلافات بھلادیتے ہیں اور ملک کی یک جہتی اور یگانگت کے لیے کام کرتے ہیں۔ اب اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے کہ دہشت گردوں کاایک ہی مقصد ہے کہ ملک کو تباہ کیا جائے اور اس کے لیے تمام حربے استعمال کئے جائیں۔ اس واقعے کے بعد طالبان دہشت گردوں کے حامی علماء اور مذہبی پارٹیوں کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں کہ وہ ملک، دین، انسانیت اور ریاست کے دشمن ہیں۔ ان کی حمایت کرنا یا ان کے لئے نرم گوشہ رکھنا بھی ملک دشمنی ہے۔ اس لئے حکومت کو چاہئے کہ تمام دہشت گردوں کے خلاف بلاامتیاز کارروائی کرے خصوصاً فرقہ پرست تنظیموں کو اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ وہ جلسہ کریں، جلوس نکالیں اور اپنے لیے رائے عامہ ہموار کریں۔ پنجاب میں موجود ان تمام فرقہ پرست جماعتوں اور تنظیموں کے خلاف بھرپور کارروائی کی جائے اور سیاسی بنیاد پر ان کو نہ بخشا جائے کہ وہ کشمیر کے جہاد میں حصہ لیتے ہیں یا افغان جہاد میں حصہ لے چکے ہیں۔مسلح تنظیم صرف اور صرف ریاست کے پاس ہو۔ کسی دوسری تنظیم کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے کہ وہ اپنی مسلح ملیشیاء بنائے اور نہتے عوام کو بندوق کی نوک پر یرغمال بنائے اور اپنی سیاست ان پر مسلط کرے۔