|

وقتِ اشاعت :   February 1 – 2015

شریف انسانوں میں سیاست کا مقصد عوام الناس کی خدمت ہے اور وہ بھی اچھی حکمرانی کے ذریعے اور بد دیانت لوگوں میں سیاست کے معنی دھوکہ دہی، فریب اور مکر کا نام ہے۔ ملک میں بہت کم پارٹیاں اس بات پر یقین رکھتی ہیں کہ اچھی سیاست اور اچھی حکمرانی سے اپنے لوگوں کی خدمت کی جائے۔ جبکہ اکثر رہنماؤں نے ذاتی بادشاہتیں قائم کی ہیں اور سیاست کو ذاتی مفادات کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ جھوٹ، مکر اور فریب کو اعلانیہ طور پر استعمال کرکے لوگوں کو بے وقوف بنایا جارہا ہے۔ ایم کیو ایم کے قیام کے وقت یہ توقع کی جارہی تھی کہ پڑھے، لکھے نوجوان سیاست میں آئیں گے تو سیاست اور طرز حکمرانی میں بھی بہتری آئے گی مگر ایم کیو ایم جس کا تعلق متوسط طبقے سے ہے اس نے عام لوگوں کو مایوس کیا۔ اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الطاف نے ایک عوامی رہنما اور خدمت گار کے بجائے اپنی ایک الگ بادشاہت قائم کی اور آئے دن کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں تاکہ روزانہ عوام کی نظروں میں رہیں۔ ملکی خبروں میں رہیں۔اگر کسی دوسرے کو پبلسٹی دی جاتی ہے تو وہ ناراض ہوتے ہیں دھمکیاں دینے لگتے ہیں۔ ان ٹی وی چینلز کو سزا دیتے اور کراچی اور حیدرآباد میں ان کی نشریات بند کردیتے ہیں کہ ان کو پاکستان کا واحد حکمران، لیڈر اور رہبر تسلیم کیا جائے اور ان کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کیا جائے۔ ان میں برداشت نہیں ہے۔ اپنے خلاف خبروں کو برداشت نہیں کرتے۔ سینکڑوں واقعات ایسے ہیں جس میں اخبارات کے بنڈل چھین لئے گئے اور اکثر جلادیئے گئے اور اس طرح سے ان اخبارات پر دباؤ بڑھادیا گیا جو ایم کیو ایم یا الطاف حسین کے حمایتی نہیں ہیں۔ حالیہ دنوں میں انہوں نے ایک ڈرامہ رچایا ہوا ہے ہر روز وہ کسی نہ کسی بہانے استعفیٰ دیتے ہیں اور ساتھ ہی اپنے کارندوں سے کہلواتے ہیں کہ استعفیٰ نامنظور کیا جائے تاکہ الطاف حسین کی بادشاہت قائم رہے۔ ان کی کوئی حتمی رائے نہیں ہے۔ اکثر ایک مسئلہ پر اپنے رائے بدلتے رہتے ہیں ۔حال ہی میں کئی بار فوج سے مطالبہ کیا کہ مارشل لاء لگاؤ، اور گھنٹوں بعد وہ فوج، فوجی افسروں پر برس پڑتے ہیں اور یہ شکایت کرتے ہیں کہ فوج اور آئی ایس آئی ان کے خلاف ہیں اور ان کے خلاف سازشیں کرتے رہتے ہیں یا الطاف حسین کو ’’اپنا کیوں نہیں سمجھتے‘‘۔ کسی کو یہ نہیں معلوم کہ ان کی مختلف معاملات میں کیا رائے ہے۔ مارشل لاء کو دعوت دیتے ہیں صرف اس لئے کہ سندھ میں سندھیوں کی حکومت ہے اور اس کا خاتمہ صرف مارشل لاء کے نفاذ کے ساتھ منسلک ہے۔ دوسری جانب جب کبھی ایم کیو ایم کا کوئی کارکن ماروائے عدالت کارروائی میں ہلاک ہوجاتا ہے تو اس کی سزا کراچی اور سندھ کے بعض علاقوں کے لوگوں کو زبردستی ہڑتال کی صورت میں دیا جاتا ہے۔ فوج، رینجرز اور پولیس پر برس پڑتے ہیں، اور کیا کیا نہیں کہتے۔ سب سے زیادہ غصہ فوجی افسروں پر ہوتا ہے اور وہ صورت حال کو صرف فوج پر حملوں کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ بہر حال ان کو یہ ڈرامہ بازیاں اب بند کرنا چاہئے کہ وہ ایم کیو ایم کی رہنمائی سے دستبردار ہورہے ہیں۔یہ جھوٹ ہے اور لوگ اس کو تسلیم نہیں کرتے کیونکہ ہر بار انہوں نے اپنا استعفیٰ واپس لے لیا ہے او روہ بھی ’’عوام کی بے حد اصرار پر ‘‘۔