|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2015

بڑی دل چسپ صورت حال ہے کہ گزشتہ روز اسلام آباد میں بلوچستان ڈیویلپمنٹ فورم کا اختتام پذیر ہوا جس میں بلوچستان کی اقتصادی صورت حال کو بہتر بنانے کے لئے مختلف تجاویز پر غور کیاگیا. اس سلسلے میں بلوچستان حکومت نے ممتاز ماہر اقتصادیات قیصر بنگالی کی سربراہی میں ایک ٹیم بھی تشکیل دی ہے ۔ لیکن اگر یہ ٹیم اس حوالے سے ممتاز صحافی و قلم نگار صدیق بلوچ کی کتاب Balochistan, its politics and economics کا مطالعہ کرتے تو ان کو ان تمام سوالات کے جواب مل جاتے جس کی وجہ سے آج بلوچستان ایک انتہائی تاریک تصویر بنا ہوا ہے ۔ صدیق بلوچ اپنی کتاب کے پیش لفظ کا آغاز ان الفاظ سے کرتے ہیں ۔ \”Former Inspector General Frontier Corps Major General Obaidullha Khatak , virtually stunned the newmen when he discussed at a news briefing that about 20 countries of the world are meddling in the affairs of Balochistan. He did not identify the Countries\” یہیں سے بلوچستان سے متعلق سوالات کا ایک نیا سلسلہ شروع ہوتا ہے یہ درست ہے کہ بلوچستان اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے لیکن سوال یہ ہے کہ دنیا کے بیس ممالک کو آخر کیا فکر پڑی ہے کہ وہ بلوچستان جیسے پسماندہ خطہ کے معاملات میں مداخلت کریں ۔ کوئی بھی بیرونی قوت اس وقت تک کسی خطہ میں مداخلت نہیں کر سکتی جب تک وہاں ایسے حالات پیدا نہ ہوں جوان کے لئے کشش کا باعث ہوں ۔ اب پھر یہ سوال اٹھتا ہے کہ وہ پر کشش صورت حال کیا ہے ۔ اس حوالے سے صدیق بلوچ حکومت پاکستان کی خارجہ پالیسی اور سیکورٹی و انٹیلی جنس ایجنسیز کے حوالے سے بھی سوال اٹھاتے ہیں کہ آخر ان کی کیا کارکردگی ہے ؟ اس ضمن میں گزشتہ روز دل چسپ صورت حال اس وقت رونما ہوئی جب بلوچستان ڈیویلپمنٹ فورم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے پی اینڈ ڈی بلوچستان کے وزیر ڈاکٹر حامد اچکزئی نے شرکاء کو بتایا کہ چمن بارڈر سے سمگلنگ کے مال پر ایف سی اہلکار رشوت لیتے ہیں ۔ شرکاء میں سوئی سدرن کمانڈر جنرل نصیر خان جنجوعہ بھی موجود تھے ۔ جس پر ان کے بڑے بھائی اور پشتونخوا میپ کے سربراہ محمود خان اچکزئی نے اپنے چھوٹے بھائی سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب ٹریک بدلیں اور ڈاکٹر صاحب نے ٹریک بدل لیا ۔ بلوچستان کے حوالے سے صدیق بلوچ کی کتاب بنیادی طورپر بلوچستان کی اقتصادیات پر روشنی ڈالتی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سیاسیات اور سماج بھی اس کا حصہ ہیں ۔ یقیناً اقتصادیات اور سیاسیاست کو الگ الگ خانوں میں نہیں بانٹا جا سکتا ۔ اور ان کے اثرات سماج اور عوام پر براہ راست مرتب ہوتے ہیں ۔ انکی اس کتاب کے کل بارہ باب ہیں ۔ جن میں انہوں نے پبلک فنانس اینڈ ڈیولپمنٹ، فزیکل انفراسٹرکچر ، پالیٹیکس آف نیچرل گیس، گوادر پورٹ پراجیکٹ ، سکس ایکالوجیکل ڈیزاسٹر ز ۔ان دس رئیرز سمیت انتظامی انارکی ، افغان مہاجرین ایک سیکورٹی رسک ، سمگلنگ ، آئینی معاملات ، خطہ کی سیکورٹی،و پولیس ، غربت اور فشریز سے لے کر ساحلی ترقی کے تمام عنوانات پر حقائق کو طشت ازبام کیا ہے ۔ کتاب کے مطالعہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بلوچستان کی پسماندگی و ناخواندگی اور محکومی کے پیچھے تاریخ کی کیا کارفرمائی رہی ہے ۔ انگریزوں نے کیونکر بلوچستان پر قبضہ کو ضروری سمجھا اورانہوں نے کن مقاصد کے تحت بلوچوں کو سماجی و اقتصادی لحاظ سے آگے بڑھنے نہیں دیا ۔ اس کی بنیادی وجہ وہ بلوچ مزاحمت کو بتاتے ہیں ان کے مطابق انگریزوں کی نو آبادیات کے خلاف بلوچوں نے کل 200مزاحمتی جنگیں لڑیں ۔ جبکہ انگریزوں نے بلوچ مزاحمت کو کچلنے کیلئے 15مرتبہ فوج کشی کی ۔ بلوچوں نے افغانستان پر حملہ کے لئے انگریزوں کی معاونت سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں بلوچ وطن کو کئی حصوں میں تقسیم کیا گیا۔ ایک حصہ ایران کو دیا گیا، ایک حصہ افغانستان کو بخش دیا گیا جبکہ دیگر حصوں کو پنجاب و سندھ اور خیبر پختونخوا میں تقسیم کیا گیا ۔ وہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان کے عوام اپنے تمام تر وسائل و سٹریٹجک پوزیشن کے باوجود غربت کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اندرون بلوچستان رہنے والے بلوچوں کی تعداد اسی فیصد بنتی ہے وہ تمام کے تمام غربت اور زندگی کی بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں ۔ اسی طرح انہوں نے وفاق کی جانب سے ملنے والے فنڈز کا پردہ بھی چاک کیا ہے اور بتایا ہے کہ بلوچستان حکومت بلوچ عوام کی نمائندگی کی بجائے صرف تنخواہوں کی ادائیگی کی ایجنسی بن کر رہ گئی ہے ۔ ان کی یہ کتاب زیادہ تر مشرف دور حکومت کے حالات و واقعات کا احاطہ کرتی ہے جس میں وہ بتاتے ہیں کہ جام یوسف دور حکومت سے لے کر نواب رئیسانی حکومت تک پی اینڈ ڈی کا محکمہ ایک غیر بلوچ کے پاس رہا جنہوں نے اس اہم محکمہ کو اپنی بادشاہت میں تبدیل کیا اور اسی فیصد سے زائد ترقیاتی رقوم اپنی مرضی سے شمالی بلوچستان کو منتقل کیے ۔ موجودہ دور حکومت میں یہ محکمہ ایک بار پھر غیر بلوچ وزیر کے پاس ہے ان کے دور میں صورت حال یہ ہے کہ اس اہم ادارے میں تمام کلیدی عہدوں پر غیر بلوچ فائز ہیں ۔ ایک انیس گریڈ کے سیکرٹری کو چیف سیکرٹری کے حکم کے تحت اس محکمہ میں ٹرانسفر کیا گیا لیکن ان کو بیٹھنے کیلئے کرسی تک نہیں دی گئی ۔ اس کے علاوہ پی ایس ڈی پی کے تحت جس طرح تکنیکی طریقے سے بلوچ علاقوں کے فنڈز کو دیگر جگہوں پر منتقل کیا جاتا ہے اس کی تمام تر تفصیلات اس کتاب میں موجود ہیں۔ انہوں نے مختلف محکموں سمیت بی ڈی اے کے کردار کو بھی واضح کیا جو ایک خود مختار ادارہ ہے لیکن وزراء کو ملنے والے فنڈز اسی محکمے کے ذریعے خرچ کیے جاتے ہیں جس کے باعث کام تو نہیں ہوتے ہیں لیکن وزراء کو وقت پر ان کا حصہ مل جاتا ہے ۔ انہوں نے وزراء اور ایم پی ایز کو ترقیاتی فنڈز دینے کی بھی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ یہ ان کا کام نہیں ہے ان کاکام صرف اتنا ہونا چائیے کہ وہ اپنے اپنے علاقوں کی ضروریات کے مطابق سکیمات بنائیں اور ان کی نگرانی کریں ۔ گزشتہ ساٹھ عشروں میں تعلیم کے نظام کو جس طرح برباد کیا گیا اس پر بھی وہ تنقید کرتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ان کا حل بھی بتاتے ہیں ۔ میگا پراجیکٹس کے حوالے سے بھی انہوں نے کئی اہم باتین کہی ہیں تاہم یہ ضروری نہیں ہے کہ ان کی ہر بات سے اتفاق کیا جائے ان کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی سوچ کے مطابق ان کا حل تجویز کریں لیکن سب سے اچھی بات یہ ہے کہ انہوں نے پہلی مرتبہ بلوچستان کی اقتصادیات پر قلم اٹھا کر ایک اچھی ڈاکو منٹ کتاب کی شکل میں ہمیں فراہم کیا ہے ۔ انہوں نے بلوچ عوام کے ساتھ ہونے والے امتیازی سلوک کی کھل کر نشاندہی کی ہے۔ حتیٰ کہ قدرتی آفات کے موقع پر جس طرح بلوچ عوام کے ساتھ تفریق روا رکھی گئی اس کی مثال نہیں ملتی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ 2000کے عشرے میں سالانہ کئی ارب روپے ترقیاتی مد میں رکھے گئے لیکن دوسری جانب وفاقی حکومت نے بلوچستان کے گیس ڈویلپمنٹ سرچارج کی مد میں 36ارب روپے کی فراہمی سے انکار کیا ۔ یہ رقوم پنجاب اور سندھ کو دے دی گئیں ۔ وہ لکھتے ہیں کہ آزاد ماہرین اقتصادیات کے مطابق وفاقی حکومت وفاقی وسائل سے بلوچستان کو ایک فیصد سے بھی کم فنڈز فراہم کرتی ہے جبکہ 99فیصدوسائل دیگر صوبوں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔اسی طرح صنعتی ترقی کے حوالہ سے آج تک کوئی اقدام نہیں اٹھایا گیا پرانے ٹیکسٹائل ملز جو پاکستان ایران کی مشترکہ کا وش تھے ،کو ختم کردیا گیا جن سے مقامی لوگوں کو 20ہزار کے قریب ملازمتیں ملتی تھیں ۔ وہ شاہراہوں کے حوالے سے آر سی ڈی ہائی وے کی مثال پیش کرتے ہیں کہ یہ شاہراہ گزشتہ 55سالوں سے زیر تعمیر ہے اور ابھی تک تشنہ تکمیل ہے ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں لاہور اور راوالپنڈی کو منسلک کرنے والی موٹر وے کو ریکارڈ مدت یعنی صرف آٹھ مہینے میں تعمیر کیا گیا۔ اسی طرح چالیس کلو میٹر آر سی ڈی شاہراہ کا وہ حصہ جو کھڈکوچہ اور لک پاس سے متعلق ہے زیر تکمیل ہے ۔نواب رئیسانی دور حکومت میں وزیراعلیٰ ہونے کے باوجود وہ اپنے حلقہ انتخاب کے اس چھوٹے سے حصے کی تکمیل نہیں کر واسکے ۔ آئی ڈی پیز کے حوالہ سے ان کا کہنا ہے کہ پختون آئی ڈی پیز کے حوالے سے حکومت کی منصوبہ بندی اور حکمت عملی کچھ اور جبکہ بلوچ آئی ڈی پیز کے حوالہ سے رویہ مختلف ہے ۔ اسی طرح بلوچستان کو ملنے والے فنڈز کا ستر فیصد حصہ غیر بلوچ علاقوں پر خرچ کیا جاتا ہے ۔ ق لیگ اور جے یو آئی کی حکومت نے بلوچوں کو ان کے تمام حقوق سے محروم کیے رکھااس عرصہ میں بلوچ علاقوں میں کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہوا ۔ جے یو آئی (ف) مساوات اور بلوچ علاقوں کو حقیقی وسائل کی فراہمی میں بری طرح سے فیل ہوئی ۔ وہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل،نواب اکبر خان بگٹی شہید اور سردار اختر مینگل کی قوم پرست حکومتوں کے ادوار کو ملایاجائے تو یہ تین سال سے بھی کم عرصہ بنتا ہے جبکہ صرف جام یوسف نے پانچ سال تک وزارت کی۔ اس طرح جام یوسف حکومت میں سیاسی بنیادوں پر تحصیلوں کو بھی ضلع کا درجہ دیا گیا۔ صدیق بلوچ لکھتے ہیں کہ بلوچستان کے نیم خواندہ ایم پی اے اور وزراء صاحبان بی ڈی اے جیسے خود مختار ادارے کو اپنے فنڈز دینے میں دلچسپی رکھتے ہیں جس کے باعث اس کے ایک سابق چئیر مین بلینےئر بن گئے ۔لائیو سٹاک کے شعبے سے70 فیصد بلوچستان کے عوام وابستہ ہیں۔ لیکن اس جانب کوئی توجہ نہیں، کسی قسم کے تعلیمی ادارے وجود نہیں رکھتے، یہی صورت حال فشریز اور معدنیات کے شعبے کی ہے۔جنہیں جان بوجھ کر نظرانداز کیا جاتاہے۔وہ تجویز کرتے ہیں کہ بلوچستان حکومت سابقہ عوام دشمن پالیسیوں کو ترک کرکے ایک ایسا ڈیولپمنٹ پلان تربیت دے جس کے تحت 0 سالوں کے دوران بلوچستان کے تمام نوجوانوں کو روزگار کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے۔ اس طرح بلوچستان میں50 کے قریب بڑے اور درمیانے دریا ہیں۔ جہاں ڈیمز بنانے کی ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ بلوچستان بھر کو بجلی کی سہولت کی فراہمی کو یقینی بنانا چاہئے۔ وہ رقمطراز ہیں کہ بلوچستان میں دس سالوں کے دوران چھ قدرتی آفات نے تباہی مچائی جبکہ قحط سالی کا مسئلہ اس سے الگ ہے۔ ان قدرتی آفات سے 28اضلاع بری طرح متاثر ہوئے جس کے باعث جہاں جانی اتلاف ہوا، وہاں بڑے پیمانے پر لوگوں کی املاک،مال مویشی اور ذرائع خوردونوش، زراعت کو بے پناہ نقصان پہنچا۔ لاکھوں لوگ بے یارومدد گار رہ گئے۔ نصیر آباد میں زرعی نظام مکمل طور پر تباہی سے دو چار ہوا جس کے باعث وہاں کے لوگوں خاص طور پر نصیر آباد اور جعفر آباد سے تعلق رکھنے والوں نے سندھ کی جانب ہجرت کی۔ اب بھی ایک ایگریکلچر یونیورسٹی کی تجویز ہے لیکن اسے نصیر آباد کے علاقے میں تعمیر کرنے کی بجائے شمالی بلوچستان میں قائم کرنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں جو سراسر ناانصافی ہے۔ قحط اور دیگر قدرتی آفات کو حکومت نے دنیا سے چھپائے رکھا۔ اس ضمن میں دیگر ملکوں اور اداروں سے امداد کی اپیل تک نہیں کی گئی۔ جس کی وجہ سے پورا مکران، نصیرآباد ڈویژن، حالیہ زلزلہ کے باعث مشکے اور آواران بری طرح سے متاثرہوئے ہیں۔ یہ بھی ستم ظریفی ہے کہ قدرتی آفات کے حوالے سے بھی بلوچستان کے ساتھ امتیازی سلوک کا مظاہرہ کیا گیا اور دس سال گزر جانے کے باوجود ان تباہ حال عوام کے لئے کچھ نہیں کیا گیا۔ بلوچستان ڈیولپمنٹ فورم کے اختتامی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنے خطاب میں بلوچستان کے افسروں اور بیوروکریسی کی تعریف کی لیکن صدیق بلوچ اپنی کتاب میں تصویر کا دوسرا رخ بتاتے ہیں کہ دراصل یہ بیوروکریسی ہے جس کے عوام دشمن رویے نے بلوچستان کو زندگی کے ہر شعبے میں پیچھے دھکیل دیا ہے۔ اگر قدرتی آفات کے حوالے سے نصیر آبادڈویژن میں ہونے والی تباہی سے متعلق صدیق بلوچ کے خیالات کو گزشتہ روز بلوچستان ڈیولپمنٹ فورم کے اجلاس سے سپیکر بلوچستان اسمبلی میر جان محمد جمالی کے خطاب کے تناظر میں دیکھا جائے تو بات صاف ہوجاتی ہے۔ میر جان جمالی نے کہا کہ موجودہ مالک حکومت میں نصیر آباد ڈویژن کے ساتھ سوتیلی ماں کا سا سلوک کیا جارہا ہے جبکہ تمام فنڈز مکران اور قلعہ عبداللہ میں خرچ ہورہے ہیں۔ اگر اس صورت حال کو روکا نہ گیا تو وہ مجبور ہونگے کہ نصیر آباد ڈویژن کو الگ انتظامی یونٹ دینے کا مطالبے کریں۔ (یہ مقالہ کتاب کی تقریب رونمائی کے دوران مورخہ 21جنوری2015کو پیش کیا گیا)