|

وقتِ اشاعت :   February 27 – 2015

کراچی (بیورورپورٹ ) بلوچ رابطہ اتفاق تحریک ( برات ) کے سربراہ پرنس محی الدین بلوچ نے کہا ہے کہ 31 دسمبر 2015ء تک اگر بلوچستان کا مسئلہ بلوچستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق حل نہ کیا گیا تو ہم باقاعدہ جنگ کریں گے ۔ وہ جمعرات کو مقامی ہوٹل میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے ۔ اس موقع پر ان کے بھائی پرنس یحییٰ بلوچ بھی موجود تھے ۔ پرنس محی الدین بلوچ نے کہا کہ یہ میری طرف سے اعلان بھی ہے ، وارننگ بھی ہے ، اپیل بھی ہے ، درخواست بھی ہے اور الٹی میٹم بھی ہے ۔ اگر 31 دسمبر تک بلوچستان کے عوام کی امنگوں کے مطابق مسئلہ حل نہ کیا گیا تو ہم اپنا مسئلہ خود حل کریں گے ۔ اس کے بعد پاکستان ہمیں رضاکارانہ طور پر چھوڑ دے ۔ ہم بلوچ خود کو سنبھال لیں گے ۔ 31 دسمبر کے بعد معاملات حکمرانوں کے ہاتھ سے نکل جائیں گے ۔ پھر وہ کچھ نہیں کر سکتے ۔ 31 دسمبر تک جو کچھ کرنا ہے ، کرلیں ، اس کے بعد بلوچستان سے امید نہ رکھیں ۔ اب تک ہم نے بلوچوں کو روکا ہوا تھا ۔ 31 دسمبر کے بعد ہم بلوچوں سے کہیں گے کہ وہ جو راستہ اختیار کرنا چاہتے ہیں ، کریں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے 5 ہزار بچوں کی لاشیں گرا دی گئی ہیں ۔ 10 ہزار لوگوں کو اغواء کر لیا گیا ہے لیکن کوئی اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ بلوچوں کی مزاحمت ختم ہو گئی ہے ۔ یہ ٹھیک ہے کہ بلوچ سست بھی ہیں ، ضدی بھی ہیں اور ان کے آپس کے جھگڑے بھی ہیں لیکن جنگ میں بلوچوں کو کوئی شکست نہیں دے سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ پوری دنیا بلوچستان میں دلچسپی لے رہی ہے ۔ حالات بد سے بدتر ہو رہے ہیں ۔ سب لوگ بلوچستان سے فائدے حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن بلوچوں کو کچھ نہیں ملتا اور انہیں مسلسل نظر انداز کیا جاتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے حالات دیگر صوبوں سے مختلف ہے ۔ میرے والد خان آف قلات نے قائد اعظم کے کہنے پر پاکستان سے الحاق کیا تھا ۔ ہم ایک چھوٹی ریاست تھے لیکن ہم بہت خوش تھے ۔ ہمارے پاس اسلام بھی تھا ، جمہوریت بھی تھی اور بلوچوں کا رسم و رواج بھی تھا ۔ پاکستان میں شمولیت کے بعد ہمارا یہ سب کچھ ختم ہو گیا ۔ ہمیں ٹھوکروں پر ٹھوکریں ملتی رہیں ۔ قیام پاکستان کے وقت دیگر صوبے براہ راست برطانوی راج میں تھے جبکہ ہم ایک خود مختار ریاست تھے ۔ ہم نے پاکستان سے الحاق اس لیے کیا تھا کہ دنیا کے نقشے پر ایک بڑی اسلامی جمہوری ریاست وجود میں آ رہی تھی لیکن قائد اعظم اور علامہ اقبال کے پاکستان کو بھلا دیا گیا ۔ 1972ء میں بلوچوں کی جمہوری حکومت کو ہٹا دیا گیا ۔ ہر ایک کی نظر بلوچستان کے وسائل پر ہے ۔ بلوچستان کی اسٹریٹجک پوزیشن سے فائدہ اٹھانے کے لیے بلوچوں کو دبایا جاتا ہے ۔ کبھی انہیں غدار اور کبھی انہیں بیرونی ایجنٹ کہا جاتا ہے اور اس کا کوئی ثبوت بھی نہیں دیا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے ہمیشہ امن کی بات کی ہے ۔ 1976 ء سے 1999ء تک بلوچستان کے حالات پر امن رہے لیکن اس کے بعد اب تک 15 سالوں سے ڈنڈا چلایا جا رہا ہے اور ہماری لاشیں گرائی جا رہی ہیں ۔ میں بھی ایک لاش بن سکتا ہوں لیکن میں یہ وارننگ دے رہا ہوں کہ اگر کچھ کرنا ہے تو ابھی کر لیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بلوچ لڑائی نہیں کر رہے بلکہ احتجاج کر رہے ہیں ۔ جو لوگ پہاڑوں پر ہیں ، وہ بھی لڑائی نہیں کر رہے ہیں ۔ ہم احتجاج اس لیے کر رہے ہیں کہ ہماری بات سنی جائے لیکن کوئی نہیں سن رہا ۔ اس وقت لاہور اپنی بات پر جما ہوا ہے ۔ لاہور کا مفاد پہلے آتا ہے ۔ اگر کسی کا تعلق لاہور سے نہیں ہے تو اسے پاکستانی نہیں مانا جاتا ۔ انہوں نے کہا کہ یہ دعوے کیے جاتے ہیں بلوچستان پر کھربوں روپے خرچ کر دیئے گئے ہیں ۔ اگر یہ کھربوں روپے خرچ ہوئے ہیں تو ان سے بلوچوں کو کیا فائدہ ہوا ہے اور عام بلوچ کو کیا ملا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں ہائے ویز ، ریلوے لائنز اور پائپ لائنز کی تعمیر کی باتیں ہو رہی ہیں ۔ اگر بلوچوں کا تعاون نہ ہوا تو یہاں کوئی ریلوے لائن ، روڈ یا پائپ لائن تعمیر نہیں ہو سکتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ باہر کے لوگ بھی یہاں آئے ہوئے ہیں اور وہ بلوچستان پر تسلط حاصل کرنے کا زور لگا رہے ہیں ۔ ہمارے حکمرانوں نے اپنے محلات بیرونی ممالک میں بنا رکھے ہیں ۔ کھربوں روپے لوٹ کر وہ لے جا رہے ہیں ۔ وہ بلوچستان پر سودا کرتے ہیں اور باہر کے ملکوں سے فائدہ حاصل کرتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت بدترین بحران میں ہے ۔ یہاں کوئی ایک حاکم نہیں ہے ۔ کوئی کہتا ہے کہ خاکی وردی والے حکمران ہیں ، کوئی کہتا ہے کہ کالے سوٹ والے حکمران ہیں اور کوئی کہتا ہے کہ سول کپڑوں والے اس ملک کے مالک ہیں ۔ تین آدمی حکومت نہیں کر سکتے ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ بلوچوں کی تنظیمیں ختم ہو گئی ہیں تو وہ غلط فہمی کا شکا رہے ۔ ہر دن کچھ نہ کچھ ہو رہا ہے ۔ کچھ بلوچ رہنما ملک سے باہر ہیں اور کچھ ملک کے اندر ہیں ۔ سب مزاحمتی گروپ بلوچ قوم کا حصہ ہیں ۔ ان سب رہنماؤں کی اپنی اہمیت اور پوزیشن ہے ۔ میرا رابطہ بلوچ عوام سے ہے ۔ اللہ اور رسولﷺ کے بعد بلوچ عوام کی طاقت میرے ساتھ ہے ۔ اس سوال پر کہ 31 دسمبر کے بعد جنگ کی نوعیت کیا ہو گی ؟ پرنس محی الدین بلوچ نے کہا کہ اس جنگ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ میں بندوق اٹھا کر پہاڑوں پر چلا جاؤں گا ۔ بلوچوں کو اب تک جو ہم نے روکا ہے ، ان سے کہیں گے کہ انہیں جو کچھ کرنا ہے ، وہ کریں ۔ یہ عوامی جنگ ہو گی ۔ انہوں نے کہا کہ اسے بغاوت کا بھی نہیں دیا جا سکتا ۔ میں لاہور اور اسلام آباد والی اسٹیبلشمنٹ کو جگانے کی کوشش کر رہا ہوں ، جو سو رہی ہے ۔ میں انہیں بتانا چاہتا ہوں کہ بلوچ ناخوش ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس ملک میں کوئی حاکم نہیں ہے ۔ ہم نواز شریف کو نہیں مانتے ۔ ان کی کوئی اتھارٹی نہیں ہے ۔ یہ اسٹیبلشمنٹ کا چہرہ ہے ۔ حکومت میں رہنے والے لوگ اور اصل طاقتور لوگ جہازوں میں بیٹھ کر چلے جائیں گے ، ان سب کے اثاثے باہر ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام اپنا بندوبست خود کر سکتے ہیں ۔ اس سوال پر کہ بلوچستان کا مسئلہ حل کرنے کے لیے آپ کیا تجاویز دیتے ہیں ؟ انہوں نے کہا کہ مسئلے سب کے سامنے ہیں ۔ اب انہیں خود ہی حل کرنا ہے ۔ اس سوال پر کہ اگر آپ کے ساتھ کوئی مذاکرات کرے تو آپ کا ایجنڈا کیا ہو گا ؟ انہوں نے کہا کہ مذاکرات کرنے والے ہی ایجنڈا بنائیں گے ۔ میں پہاڑوں پر احتجاج کرنے والوں کو تو نہیں روک سکتا ۔ انہوں نے کہا کہ میرا پیغام یہ ہے کہ اللہ پر اپنا توکل رکھیں اور اسے یاد کریں ، چاہے آپ شیعہ ہیں یا سنی ۔ مسلم ہیں یا غیر مسلم ۔ اللہ تو سب کا ہے ۔