|

وقتِ اشاعت :   February 28 – 2015

سیاسی مبصرین کو اس وقت زبردست حیرانگی کا سامنا کرنا پڑا جب وزیراعظم اور اپوزیشن کے ایک رہنما عمران خان نیازی نے راتوں رات آئین میں ترمیم لانے کا فیصلہ کرلیا۔ وجہ یہ تھی کہ عمران کے کچھ ارکان صوبائی اسمبلی کئی وجوہات کی بناء پر ان سے الگ ہوگئے تھے اور انہوں نے اپنا الگ گروپ بنالیا تھا اور وہ سینٹ کے انتخابات میں پار ٹی کے ڈسپلن سے باہر ووٹ دیتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ عمران خان نیازی جس نے بلند وبانگ دعوے کئے تھے اور نیا پاکستان بنانے کا عزم کیا تھا۔بلکہ راتوں رات حکومت کو گراکر خود وزیراعظم بننے کے سہانے خواب دیکھ رہے تھے تو ان کو ایک شدید دھچکا لگا جب اس کے اپنے پارٹی کے لوگوں نے بغاوت کردی۔ اس کے لئے عمران خان اور حکومت دونوں نے خود یہ فیصلہ کیا کہ خفیہ رائے شماری کے دیرینہ جمہوری عمل کو غارت کیا جائے بلکہ راتوں رات کیا جائے جس کے لئے ان دونوں پارٹیوں نے آئین میں ترمیم لانے کافیصلہ کیا۔ چونکہ خفیہ رائے شماری خصوصاً سینٹ کے انتخابات میں جمہوری عمل کا ایک اہم ترین عنصر ہے اس لئے اس کو فوری طور پر ختم کرایا جائے۔ پی پی اور جمعیت علمائے اسلام نے اس کی مخالفت کردی۔ شاید مخالفت صحیح کی کیونکہ نون لیگ کو بلوچستان میں کچھ مشکلات کا سامنا ہے اور پی ٹی آئی کے عمران خا ن نیازی کو کے پی کے میں بغاوت کا سامنا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں شاید وہ ایک آدھ سینٹ کی سیٹ نہیں جیت رہے ہیں اس لئے آئین سے خفیہ رائے شماری کی شق ختم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ یہ انتہائی ظلم کی بات ہے کہ اپنے آپ کو جمہوری اور جمہوری پارٹی کے سربراہ کہنے والے رہنما بیلٹ باکس کی حرمت کے پیچھے پڑے ہیں کیونکہ ان کے ایک آدھ آدمی جیتتے نظر نہیں آرہے ہیں۔ اس لئے بیلٹ باکس کی حرمت کو تہس نہس کرکے جمہوریت کی اینٹ سے اینٹ بجائی جائے اور خفیہ رائے شماری ختم کی جائے۔ لوگ چشم دید گواہ ہیں کہ ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی تباہی اور بربادی میں حکمرانوں کا زیادہ بڑا کردار رہا ہے۔ حکمرانوں نے ہی ریاستی اختیارات کا غلط استعمال کیا اور ارب پتی بن گئے۔ بعض حکومتوں نے تو سرکاری طور پر رقم دے کر ووٹ خریدے۔ مسلم لیگ نے اس خرید و فروخت میں سب سے اہم ترین کردار ادا کیا تھا۔ یہ سلسلہ بی ڈی ممبران سے شروع ہوا اور ایوب خان کے صدارتی انتخابات میں فی ووٹ تین ہزار روپے میں خریدا گیا۔ بلکہ بلوچستان کے ایک سابق والی ریاست نے اپنے بی ڈی ممبر والا ووٹ کئی بار تین تین ہزار روپے میں فروخت کیا۔ صدارتی امیدوار ایوب خان کواور دوبار قومی اسمبلی کے انتخابات میں انہوں نے اپنا ووٹ فروخت کیا۔ موجودہ صورت حال میں پارٹی اور ان کے رہنماؤں کو رونے دھونے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان تمام منحرف ارکان اسمبلی کو پارٹی سے نہ صرف نکالا جاسکتا ہے بلکہ ان کی اسمبلی کی رکنیت بھی ختم کی جاسکتی ہے۔ اس لئے آئین میں ترمیم کی ضرورت نہیں خصوصاً خفیہ رائے شماری کے ختم کرنے کی ضرورت نہیں ہوگی۔