|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2015

بارہ سالہ واجد علی پہلے ہر صبح کو بستہ لیکر اسکول جاتے تھے مگر آج کل وہ ایک بورہ لیکر کچرہ سیمٹنے کے لیے نکل جاتے ہیں۔واجد علی کراچی کے سورش زدہ علاقے اورنگی ٹاؤن کٹی پہاڑی کے رہائشی ہیں، جہاں گزشتہ چند برسوں سے جاری مسلحہ تصادم اور ٹارگٹ کلنگ نے ہر طبقے کو متاثر کیا ہے، اس ہی وجہ سے وہاں کئی اسکول بھی ویران ہوگئے ہیں۔واجد علی کٹی پہاڑی سے ملحقہ عمر فاروق کالونی میں واقع سرکاری اسکول میں تیسری جماعت کے طالب علم تھے، مگر کشیدگی کے باعث اساتذہ نے اسکول آنا چھوڑ دیا اور گزشتہ تین سالوں سے اسکول بند ہے ، ایسی ہی صورتحال علاقے میں موجود کچھ دیگر اسکولوں کو بھی ہے۔واجد کے اسکول کی طرح مسلح تصادم کی وجہ سے بند ہوجانے والے اسکولوں کے طلبہ عمر میں بڑہ جانے کے باوجود ابھی تک ان ہی جماعتوں میں ہیں۔
واجد علی خان بارہ سال کے ہیں اور گذمشتہ چار سالوں سے تیسری جماعت سے آگے نہیں بڑہ سکے ہیں کیونکہ ان کا اسکول چار سالوں سے بند ہے۔ عمر فاروق کالونی میں اکثریت پشتو بولنے والی آبادی کی ہے، علائقہ مکینوں کے مطابق تین سال پہلے تک سرکاری اسکول میں ڈہائی سو بچے زیر تعلیم تھے جن کے لیے چار اساتذہ مقرر تھے جن کا تعلق دوسری قومیت سے تھا۔ ایک استاد نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روزنامہ آزادی کو بتایا کہ وہ سیکیورٹی کے حوالے سے خدشات محسوس کرتے ہیں، اس لیے وہ اپنے ڈیوٹی پر جانے سے کتراتے ہیں۔اسکول بند ہونے کے بعد بعض افراد نے اپنے بچوں کا نجی اسکولوں میں داخلہ کرادیا ہے اور وہ لوگ جو نجی اسکولوں کے اخراجات برداشت نہیں کرسکتے تھے انہوں نے بچے قدرت کے سہارے چھوڑدیئے، جن میں بہت سے بچے کچرہ چن کر بیچتے ہیں۔ علاقے میں نجی اسکول کے مالک عبدالوحید خان کے مطابق اردو بولنے والے اچھے اساتذہ اور پٹھان بہت اچھے شاگرد ہوتے ہیں مگر لسانی تصادم کی وجہ سے اردو بولنے والے اساتذہ پشتو آبادیوں میں آجا نہیں سکتے، اس وجہ سے کئی سرکاری اسکول ریکارڈ پر تو چلے رہے ہیں مگر عملی طور پر بند ہیں۔صوبائی محکمہ تعلیم سندھ کے حکام کے مطابق کراچی میں تینتیس سو کے قریب سرکاری پرائمری اسکول ہیں، Zenab lost her eye in stray bulletتاہم محکمہ کے پاس یہ اعداد و شمار دستیاب نہیں ہیں کہ فسادات سے متاثرہ علاقوں میں کتنے سرکاری اسکول بند ہیں۔کٹی پہاڑی سے ملحقہ علاقے قصبہ کالونی میں اکثر اسکولوں کی عمارتوں پر فائرنگ کے نشانات موجود ہیں۔ عبدالوحید خان کے مطابق حالیہ ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں صرف قصبہ کالونی میں پندرہ بچے ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے ہیں۔ انہوں نے ان بچوں کی تفصیلات اور تصاویر اپنے لیپ ٹاپ میں محفوظ کر رکھی ہیں۔قصبہ کالونی کے قریب بہار کالونی واقع ہے، جہاں اکثریت اردو بولنے والی آبادی کی ہے، کشیدگی کے دنوں میں یہ کالونی بھی محفوظ نہیں رہتی۔دس سالہ زینب اسی کالونی کی رہائشی ہیں، وہ چوتھی جماعت کی طالبہ ہیں رواں سال اگست کے ایک روز وہ اسکول جانے کے لئے تیار ہورہی تھیں کہ نامعلوم سمت سے آنے والی گولی کا نشانہ بن گئیں اس گولی نے ان کی دائیں آنکھ ضایع کردی۔ زینب کے والد گارمنٹ فیکٹری میں ملازمت کرتے ہیں اور بچی کی مصنوعی آنکھ پر آنے والے خرچے کو وہ برداشت نہیں کرسکتے ہیں۔ آنے والی نسلوں کو اختلافات اور نفرتوں سے بچانے کے لیے بھی اس علاقے میں کچھ لوگ کوشاں ہیں، ان میں ایک نجی اسکول کے مالک سید لطیف نے اپنے اسکول کے بچوں کی امن کمیٹیاں بنائی ہیں، جس کے تحت انہوں نے اپنے اسکول میں زیر تعلیم طالب علم کو اپنے علاقے کا امن سفیر مقرر کیا ہے۔یہ بچے اپنے محلوں میں اردو اور پشتو بولنے والے لوگوں کو یہ درخواست کریں گے کہ طلبہ ، طالبات اور تعلیمی اداروں کو تصادم سے محفوظ رکھیں تاکہ علائقے میں تعلیم فروغ پاسکے۔