|

وقتِ اشاعت :   March 1 – 2015

کوئٹہ وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ ساحل اور وسائل کے دفاع اور حفاظت کیلئے اپوزیشن ہمارے ہاتھ مضبوط کرے۔ گوادر کاشغر اقتصادی رہداری کے کوئٹہ ژوب ڈیرہ اسماعیل خان روڈ سے متعلق وفاق سے تمام تفصیلات حاصل کریں گے۔ گذشتہ دور میں ساحل ا ور وسائل کو فروخت کیاگیا ۔ سیندک پراجیکٹ اور گوادر میں لاکھوں ایکڑ اراضی الاٹ کرنے والوں کو بلوچستان کے عوام بخوبی جانتے ہیں ریکارڈپر سب کچھ موجود ہے بلوچستان کاپر اینڈ گولڈ پراجیکٹ کے نام پر صوبے کے پونے دو ارب روپے کے ضیاع کا حساب کون دے گاان خیالات کا اظہار انہوں نے گوادر کاشغر اقتصادی راہداری سے متعلق حکومتی اور اپوزیشن ارکان اسمبلی کی مشترکہ قرارداد پر بحث سمیٹے ہوئے کیا۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ بلوچستان کے ساحل اور وسائل کے دفاع اور حفاظت سے متعلق اپوزیشن ہمارے ہاتھ مضبوط کرے۔ بلوچستان کے حقوق کی حفاظت سے متعلق موجودہ حکومت کے کردار سے متعلق کسی کو شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے انہوں نے کہا کہ گوادر کاشغر خضدار کوئٹہ ژوب ڈیرہ اسماعیل خان روٹ سے متعلق وفاق سے رابطہ کرکے تفصیلات لی جائیں گی کہ روٹ کی پوزیشن کیا ہے۔ اگر مذکورہ اقتصادی راہداری میں کوئی تبدیلی کی گئی ہے تو اس کی بحالی کیلئے بھرپور کوشش کریں گے۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ ساحل سے مراد ہمارا، گوادر اور وسائل سیندک اور ریکوڈک ہیں لیکن بدقسمتی سے گذشتہ حکومت میں صرف 25دنوں میں پورے گوادر کی اراضی فروخت کی گئی جبکہ ہماری حکومت نے غیر قانونی اور فروخت کی جانے والی لاکھوں ایکڑ اراضی کی الاٹمنٹ منسوخ کردی گذشتہ حکومت نے گوادر میں سواڑ ڈیم کی تعمیر کیلئے 16کروڑ روپے فراہم نہیں کئے لیکن گوادر شہر کو ٹینکرز کے ذریعے 50کروڑ کا پانی فراہم کیاگیا۔ جبکہ ہم نے مطلوبہ فنڈز جاری کرکے ڈیم کو مکمل کیا۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کا حق حاکمیت اور ساحل و وسائل کا مکمل اختیار صوبے کے حوالے کئے جانے سے متعلق ہماری جدوجہد کسی سے پوشیدہ نہیں ۔ انہوں نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم ملک کی تاریخ میں بہت بڑی پیشرفت ہے جس کے بارے میں ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اٹھارویں ترمیم میں نیشنل پارٹی نے تین سبجیکٹ جبکہ پشتونخوا میپ ، جمعیت علماء اسلام اور دیگر جماعتوں نے چار سبجیکٹ کے علاوہ باقی تمام اختیارات صوبوں کو منتقل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ ہمارا موقف تھا کہ دفاع ، کرنسی، اور خارجہ امور وفاق اور مواصلات صوبوں کے حوالے کیا جائے کیونکہ پورٹ، مواصلات کے زمرے میں آتا ہے جبکہ پیپلز پارٹی کراچی پورٹ سے متعلق کافی حساس تھی ۔ پیپلز پارٹی کی قیادت جن میں نوید قمر، رضا ربانی اور خورشید شاہ جوکہ وفاق کی نمائندگی کررہے تھے انہوں نے ہمارے ساتھ یعنی میں ، میر اسرار اﷲ زہری اور آغا شاہد بگٹی کے ساتھ تحریری معاہدہ کیا کہ گودر پورٹ کو بلوچستان کے حوالے کرنے سے متعلق قانونی سازی کی جائے گی معاہدے پر دستخط بھی ہوئے لیکن جب اٹھارویں ترمیم کا مرحلہ گذر گیا تو انہوں نے اپنا وعدہ نہیں نبھایا انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے عوام کا آج بھی مطالبہ ہے کہ گوادر پورٹ کے اختیارات حکومت بلوچستان کے پاس ہوں اور گوادر پورٹ کے چےئرمین کی تقرری بھی صوبائی حکومت کرے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ وفاقی حکومت نے پہلی بار چےئرمین کی تعیناتی سے متعلق ہماری رائے مانگی جس پر صوبائی حکومت نے میر دوستین جمالدینی کا نام تجویز کیاجوکہ اس وقت پورٹ کا چےئرمین ہے ۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پارٹیوں کے درمیان اختلافات ضرور ہیں لیکن بلوچستان کے حقوق ، حق حاکمیت ، سائل و وسائل کے دفاع کی خاطر ہمیں سیاسی اختلافات کو بھلا کر ایک صفحے پر مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے ۔وزیراعلیٰ نے کہا کہ اٹھارویں ترمیم سے قبل بھی معدنیات،صوبائی حکومت کے اختیار میں تھے چائنا کے ساتھ سیندک پراجیکٹ کے معاہدہ کی مدت2011میں ختم ہوئی لیکن افسوس ہم پر تنقید کرنے والے لوگوں نے سیندک پراجیکٹ کو مزید دس سال کیلئے چائنا کے حوالے کرنے کا معاہدہ کیا اور اس معاہدے میں 50 فیصد وفاق، 48فیصد چائنا جبکہ بلوچستان کو صرف 2 فیصد رائیلٹی مل رہی ہے ۔سیندک کو چائنا کے حوالے کرنے والے مجھ پر یا وفاق پر کس طرح الزام لگاسکتے ہیں یہ معاہدہ تو گذشتہ صوبائی حکومت نے ہی کیا تھا۔ انہوں نے سوال اٹھایا کہ 11ارب روپے کے بلوچستان کاپر گولڈ پراجیکٹ منصوبے پر کوئی کام ہوئے بغیر پونے دو ارب روپے خرچ کئے گئے انہوں نے کہا کہ غریب صوبے کے پونے دو ارب روپے ضائع کرنے کا آخر کون ذمہ دار ہے کہ یہ کس نے اور کیسے کئے ۔ ہم نے ڈاکٹر ثمر مبارک مند کے اس منصوبے کو بند کردیا ہے کوئی ہمیں بتائے کہ پونے دو ارب روپے ضائع ہونے کی ذمہ داری ہم کس پر ڈالیں یا کون اس کی ذمہ داری قبول کرے گا۔ غریب صوبے کی اتنی بڑی رقم ضائع کی گئی ۔ انہوں نے دوبارہ اپنے اس عزم کو دہرایا کہ ریکوڈک کے معاملے پر کوئی بھی بات نہ تو عوام اور نہ ہی اسمبلی سے پوشیدہ رکھی جائے گی ایسا کوئی کام نہیں کریں گے کہ کل ہمیں وضاحت کرتے ہوئے ندامت محسوس ہو۔ انہوں نے گوادر سے متعلق کہا کہ پچیس دنوں میں پورے گوادر کو فروخت کیاگیا ڈاکٹر مالک نے تو ایک انچ بھی اپنے نام الاٹ نہیں کیا۔ لاکھوں ایکڑ اراضی آئل ریفائنری کے نام پر حاصل کی گئی بعد میں اپنے اپنے ناموں پر الاٹ کروایاگیا۔ ایکسپورٹ پروموشن زون کی اسی فیصد اراضی بھی اسی طرح الاٹ کی گئی جس سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔ وزیراعلیٰ نے کہا کہ یہ درست ہے کہ بلوچستان مشکل دور سے گذر رہا ہے اگر مجھ سے بھی کوئی غلطی سرزد ہوتی تو میں اس کا اخلاقی طور پر برملا اظہار کرتا وزیراعلیٰ نے کہا کہ موجودہ حکومت نے سواڑ ڈیم کیلئے رقم فراہم کی ہے اب صرف متاثرین کو معاوضے کی ادائیگی باقی ہے جس کے بعد مذکورہ ڈیم سے گوادر شہر کو پانی کی سپلائی شروع کردی جائے گی ۔ انہوں نے کہا کہ شادی کور ڈیم پر بھی کام جاری ہے موجودہ حکومت گوادر سٹی میں سیوریج سسٹم کی بحالی کیلئے دس کروڑ روپے کی لاگت سے منصوبہ بنارہی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ میں نے گوادر پورٹ کے چےئرمین کو سختی سے ہدایت کی ہے کہ کسی بھی غیر بلوچستانی کو پورٹ میں ملازمت پر نہ رکھا جائے انہوں نے کہا کہ آج میں وزیراعلیٰ ہوں کل نہیں رہوں گا سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن صوبے کے وسیع تر مفاد و حقوق کیلئے سب کو ملکر جدوجہد کرنی چاہئے ۔