|

وقتِ اشاعت :   March 17 – 2015

36سالہ اللہ بخش کا تعلق بلوچستان کے ضلع نوشکی کی یونین کونسل ڈاک سے ہیں ، پیشے کے اعتبار سے وہ ایک کسان ہیں، اللہ بخش کاشتکاری کا شعبہ چھوڑ کر کوئٹہ میں محنت مزدوری کرنے کا سوچ رہے ہیں ، پانچ افراد پر مشتمل کنبے کے اخراجات کی ذمہ داری اللہ بخش پر ہے جب اللہ بخش سے پوچھا کہ وہ کاشتکاری جیسے منافع بخش شعبے کو چھوڑ کر گھر سے کئی کلو میٹر دور کوئٹہ میں کیوں محنت مزدوری کرنا چاہتا ہیں تو اس نے بتایا کہ اس کے علاقے میں بارشوں کا سلسلہ کئی سالوں سے رک گیا ہے کھیتوں اور باغات کو پانی کی فراہمی ناممکن ہے پورا علاقہ خشک سالی کی لپیٹ میں ہے ۔ پانی کی عدم فراہمی نے اس کے کھیتوں پر برے اثرات مرتب کئے ہیں اور اسے کافی نقصان بھی ہوا ہے ، اس سے قبل وہ اپنے کھیتوں اور فصلوں کو ٹیوب ویل کے ذریعے سیراب کرتا تھا مگر اب نوشکی کا پورا علاقہ ہی خشک سال سے دوچار ہے اور زیر زمین پانی کی سطح نیچے جارہی ہیں جس کی وجہ سے ٹیوب ویل بھی خشک ہو چکے ہیں ۔ یہ مسئلہ صرف اللہ بخش کا نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع کے کسان اس جیسی صورتحال سے دورچار ہیں، واضح رہے کہ حکومت بلوچستان باقاعدہ طور پر اعلان کر چکا ہے کہ صوبہ موسم سرما میں بارشوں اور برفباری کی نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی سے دوچار ہے حکومت کے مطابق صوبے کے 32اضلاع میں سے 28اضلاع خشک سالی کی ذد میں ہیں ۔ بلوچستان میں ایسا پہلی بار نہیں ہوا سرکاری اعداد وشمار کے مطابق اس سے قبل بھی یہ صوبہ متعدد بار خشک سالی کی زد میں رہا ہے ،سن 1997سے سال 2003ء تک بھی بلوچستان میں خشک سالی کا راج رہا ہے ۔ یونائیٹڈ نیشن (یواین)رپورٹس کے مطابق سال 2001ء میں خشک سالی کے باعث صوبے کو زراعت کے شعبے میں 1.76ملین روپے کا نقصان ہوا یہ چھ سالہ خشک بلوچستان کی تاریخ میں سب زائد المدتی خشک سالی تھی جس میں بارشیں نہ ہونے کہ وجہ سے ایک جانب خوراک کی قلت کاسامنا ہوا تو دوسری جانب اس سے صوبے میں مختلف موذی امراض بھی پھیل گئیں ۔ پی ڈی ایم اے بلوچستان کے ذرائع کے مطابق اس وقت خشک سالی بلوچستان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہے اس کے باعث صوبے میں زراعت اور گلہ بانی کے شعبے تباہی سے دوچار ہیں پی ڈی ایم اے نے اس صورتحال کو انہتائی خطرناک قرار دیتے ہوئے تمام صوبائی محکموں بشمول لائیو اسٹاک ، محکمہ خوراک اور زارعت کو صورتحال سے نمٹنے کے لیے وارننگ جاری کیا ہے ۔ بلوچستان کی 80فیصد آبادی دیہی علاقوں میں رہائش پذیر ہے ، اور یہ پوری آبادی ہی خشک سالی سے شدید متاثر ہونے کہ وجہ سے شہروں کا رخ رہی ہے ، شکیلہ نوید ماہر ماحولیات ہے ان کے مطابق موسمیاتی تبدیلوں کی وجہ سے خشک سال کا دور دورا ہے اور دیہی علاقوں سے بڑی تعداد میں لوگ شہروں کا رخ کررہے ہیں جس کہ وجہ سے صوبے میں معاشی اور سماجی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے DSC_0239۔ ادھر محکمہ موسمیات کے حکام کے مطابق بلوچستان میں ماہانہ 2سے 25ملی میٹر بارشیں ریکارڈ کی جارہی ہے جو کہ ملک کے دیگر صوبوں کی نسبت بہت کم ہے ۔نوشکی ہی کے ایک اور مکین ریاض احمد کا کہنا ہے کہ ہمارے ضلع اور اسے کے قریبی دیگرا ضلاع میں کاشتکاری اور گلہ بانی کا دار و مداد بارشوں پر ہے مگر یہاں تو گزشتہ 8ماہ سے بارش ہی نہیں ہوئی اور اس سال ہمیں کوئی فصل ہوتی نظر نہیں آ رہی ہے جس سے ہزاروں کسانوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ یہ نقصان صرف کسانوں کا نہیں بلکہ ان کے ساتھ کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کا بھی ہے جو مال مویشی پالنے اور کھیتی باڑی میں مردوں کے برابر کام کرتی ہیں محمد ابراہیم کی اہلیہ 40سالہ زیب النساء بھی اس صورتحال سے پریشان ہے وہ اپنے خاوند کے ہمراہ کھیتوں میں ان کا ہاتھ بٹھاتی ہیں تاکہ گھریلو اخراجات کا پورا کیا جائے اور یہی نہیں مال مویشی کی دیکھ بال بھی اس کے ذمے ہے وہ کہتی ہیں کہ بارش نہ ہونے کی وجہ سے چراہاگائیں سوکھ گئیں ہیں جس کی وجہ سے مال مویشی کا خوراک پورا کرنا مشکل ہو گیا ہے اور کم خوراکی کی وجہ سے مویشی امراض کا شکار ہو کر مر رہے ہیں جس سے بھاری نقصان برداشت کرنا پڑا ہے انٹرنیشنل واٹر منیجمنٹ انسٹیٹویٹ کے اعداد و شمار کے مطابق بلوچستان میں کل ٹیوب ویلوں کی تعداد 21000ہے اور کسان ان ٹیوب ویلوں ہی کے ذریعے کاشتکاری کرتے ہیں تاہم 40فیصد دیگر کسانوں پاس ٹیوب ویل نہیں ہیں اور انکی کاشتکاری بارشوں ہی پر منحصر ہے ۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زاعت کے نمائندے عبدالحمید علیزئی کے مطابق بلوچستان کے ضلع مستونک میں بارشوں کمی کے باعث زیر زمین پانی کی سطح 800سے 1000فٹ نیچے جاچکی ہے یہاں پہلے صرف300فٹ میں پانی دستیاب تھی ۔ خشک سالی بے باعث اللہ بخش اور اس جیسے سینکڑوں کسانوں کے پاس شہری علاقے میں ہجرت کرنے کے سواء کوئی دوسرا چارہ نہیں ہے ۔