|

وقتِ اشاعت :   March 24 – 2015

کراچی جیل میں مقید صولت علی خان عرف صولت مرزا ،فروری2014ء کو بوجہ حفاظتی بندوبست کے بلوچستان کی سینٹرل جیل مچھ میں منتقل کردیا گیا تھا۔ تب سے مچھ جیل بھی مرکز نگاہ بنا ہوا ہے۔ صولت مرزا کوئی معمولی مجرم نہیں وہ ایک بڑی سیاسی جماعت کا کارکن تھا اورسیاسی بنیاد پر ہدفی قتل کیا کر تا تھا اور اب ان کی گفتگو نے گویا ملک کی سیاسی ماحول میں بھونچال پیدا کر رکھا ہے۔ بالخصوص پھانسی سے چند گھنٹے قبل صولت مرزا کے نیوز چینل پر نشر ہونے والے ویڈیو بیان کے بعد تو ہلچل مچ گئی ہے اور متحدہ قومی موومنٹ تو کسیانی بلی کا منظر پیش کررہی ہے۔ مجرم تو بڑا ہی ہے لیکن جس جیل میں رکھا گیا ہے وہ بھی شہرت و ہیبت کے لحاظ سے کم نہیں۔ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ کے جنوب میں تقریباً 60کلو میٹر دور وادی بولان کے سنگلاخ پہاڑوں کے بیچوں بیچ ایک چھوٹے سے قصبے جسے اب شہر بھی کہا جاتا ہے مچھ کا علاقہ ہے ۔ کوئٹہ سے جاتے ہوئے بائیں ہاتھ پر مچھ کو راستہ مڑتا ہے۔ چاروں طرف پہاڑ ہے اور درمیان میں کم و بیش بیس ہزار کی ایک مختصر آبادی بڑی دلکش نظر آتی ہے ۔ مچھ اپنے خوبصورت ریلوے اسٹیشن کے حوالے سے بھی معروف ہے۔یہ اسٹیشن ’’سوئیزرلینڈ ‘‘کے اس وقت کے ایک اسٹیشن کے مشابہ بنایا گیا ہے ۔ غرضیکہ ریل کے ذریعے یہ قصبہ ملک کے دیگر علاقوں سے منسلک ہے اور پہلے مچھ کا واحد قابل بھروسہ رابطہ بذریعہ ریل ہی ہوتا تھا۔ 6اکتوبر1879 میں بولان میں ریلوے لائن بچھائی گئی ،یوں 14جنوری1880 کو پہلی بار اسٹیم انجن اس لائن پر چلی ۔ کولپور سے سبی تک تقریباً140کلو میٹر لائن پر چٹیل پہاڑوں کا سینہ چھیر کر20سرنگیں تعمیر کی گئیں۔ انگریز نے جب کوئٹہ میں چھاؤنی تعمیر کی تو اپنے زیر قبضہ بر ٹش بلوچستان اور ریاست قلات کو برصغیر کے دیگر خطوں سے منسلک کرنے کی خاطر سڑک کی تعمیر بطور خاص ریلوے لائن بچھانا عسکری نقطہ نگاہ سے لازم تھا ،چناچہ انگریز سرکار نے ریلوے لائن بچھا کر شاہکار کا رنامہ انجام دیا ۔کوئلے کی صنعت کے باعث مچھ کی ایک الگ اہمیت ہے۔اس کی وادیاں اور پہاڑ کوئلے کے ذخائر سے بھرے پڑے ہیں۔ مچھ کے اندر ہر طرف کوئلے کے کان دکھائی دیتے ہیں۔1883 سے یہاں کے پہاڑوں کی گہرائیوں سے کوئلہ نکالا جارہا ہے ۔ یہاں ریلوے ملازمین کے علاوہ ایک بڑی آبادی کوئلہ کان سے وابستہ مزدوروں اور دیگر افراد کی بھی ہے، البتہ یہاں اصل آبادی سمالانی، بنگلزئی، کرد اور ساتکزئی قبائل پر مشتمل ہے ۔یہ آبادی جیل اور ریلوے ملازمین ،کو ئلہ کانوں سے وابستہ افراد اور مقامی لوگوں کا منفرد امتزاج ہے۔ مچھ اور قومی شاہراہ کے درمیان ایک بڑی اور کشادہ ندی حائل ہے اس ندی میں قدرتی چشموں کا پانی بہتا ہوا دریا بولان کا حصہ بن جاتا ہے ۔ 80ء کی دہائی میں ندی کے اوپر پل تعمیر کیا گیا یوں قومی شاہراہ سے رابطہ مستقل جڑ گیا ورگرنہ پہلے اس ندی سے گزرنا پڑتا تھا اگر بارشیں ہوتیں تو زمینی رابطہ منقطع ہو جاتا ۔ بولان زمین کا انتہائی حسین ٹکرا ہے ،ان کی وادیوں کا شمار ملک کے خوبصورت تفریحی مقامات میں ہو تا ہے’’ پیر غائب ‘‘ میں پہاڑ کی غار سے نکلنے والا صاف شفاف پانی آبشار کی صورت میں بہتا ہوا وادی میں پھیلتا ہے اور دریا بولان کے نظارے قابل دید اور آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچاتی ہیں ۔ یہاں گرمی بھی غضب کی ہوتی ہے ۔چنانچہ مچھ ریلوے اسٹیشن اورکوئلے کانوں کے بعد ایک بڑا حوالہ سینٹرل جیل مچھ کا ہے۔ اس جیل کو انگریز استعمار نے1929ء میں قائم کیا، جب آپ مچھ میں داخل ہوں گے تو کچھ فاصلہ طے کرنے کے بعد بائیں ہاتھ پر پہاڑ کے دامن میں اونچائی پر اس جیل کا ہیبت ناک مرکزی دروازہ اور بلند دیوار پر نظر پڑتی ہے ۔انگریز نے یہ جیل یہاں کے موسم اور محل و قوع کے پیش نظر تعمیر کی تھی ۔ گرمیوں میں زبردست گرمی ستاتی ہے تو سردیوں میں سرد ہوائیں چین سے بیٹھنے نہیں دیتی ۔ مچھ جیل 62ایکڑ رقبے پر تعمیر ہے جس میں 825 قیدیوں کی گنجائش رکھی گئی ہے ۔ یہ جیل اپنی ہیبت اور خوف کی بناء پر بھی معروف ہے۔ انگریز دور میں برصغیر پاک و ہند کے مختلف علاقوں سے حریت پسندوں کو یہاں اذیت دینے کی خاطر قید کیا جاتا ، انہیں طرح طرح کی ذہنی و جسمانی تکالیف و آزمائشوں سے دوچار کیا جا تا ۔ یہاں قیدیوں کا اہل خانہ ،رشتہ داروں اور دوست و احباب سے کیا گو یا دنیا سے بھی رابطہ کٹ جاتا ۔ پاکستان کے بڑے قومی رہنماء یہاں اسیر رہ چکے ہیں۔ مچھ جیل کو چھوٹا ’’ کالا پانی‘‘ کہا جاتا تھا۔ اس جیل میں قالین بافی ، کمبل،فرنیچر اور کپڑے کے کارخانے قائم تھے ۔ یہاں کی بنی ہوئی اشیاء ملک بھر میں بھیجی جاتیں اور قیدی ہنر مند ہوکر نکلتے۔ 2009میں قیدیوں کے ایک ہنگامے کے دوران جیل کی تمام فیکٹریاں، لائبریری اور انگریز دور کے برج نذر آتش کئے گئے جس پر دوبارہ کام نہیں ہوسکا ہے۔ جیل اس وقت خستہ حالی کا شکار ہے۔1978 کے بعد سے اب تک 61 قیدیوں کو مچھ جیل میں پھانسی پر لٹکایا جاچکا ہے ۔ غرض متحدہ قومی موومنٹ کا کارکن صولت مرزا اس جیل کے احاطہ نمبر12/11میں قید زندگی کے دن کاٹ رہا ہے۔ صولت مرزا کے ڈیتھ وارنٹ میں آخری دن 19مارچ2015ء قرار دیا گیا تھا لیکن پھانسی سے پانچ چھ گھنٹے قبل جاری کئے گئے صدارتی حکم میں72گھنٹے کی توسیع کردی گئی۔ ما بعدوفاقی وزارت داخلہ نے 90دن کی توسیع کی سفارش کردی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ توسیع ویڈیو پیغام اور انکشافات کے بعد کی گئی۔ یہ ویڈیو ریکارڈنگ عین آخری لمحات میں کس نے کرائی ۔ فی الحال یہ ایک راز ہے۔ البتہ جیل حکام نے ایسی کسی ویڈیو ریکارڈنگ کی نفی کی ہے۔ صوبائی وزیر داخلہ نے اس ضمن میں تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ البتہ وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے پھانسی مؤخر کرنے کا جواز خرابی صحت بتلایا ،اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے بھی تائید میں خرابی صحت کے الفاظ ہی دہرائے لیکن جب میڈیا نے پھانسی سے چند گھنٹے قبل جیل کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سجاد حیدر سے بات کی تو انہوں نے صحت و طبیعت درست قرار دی تھی۔ صولت مرزا کی ویڈیو نے متحدہ قومی موومنٹ کی قیادت کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے۔ شاہد حامد قتل کیس دوبارہ کھولنے کی باز گشت ہورہی ہے۔ قانونی ماہرین کہتے ہیں کہ سی آر پی سی میں مقدمہ ’’ری اوپن‘‘ کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔ چونکہ کیس بند ہوچکا ہے ۔ ہائی کورٹ سے لیکر سپریم کورٹ تک تمام اپیلیں مسترد ہوچکی ہیں۔ عدالتیں فیصلہ دے چکی ہیں لہٰذا کوئی اس موقع پر وعدہ معاف گواہ نہیں بن سکتا اور اگر صدر مملکت کی جانب سے رحم کی اپیل مسترد ہوتی ہے تو سزائے موت کو عمر قید میں تبدیل نہیں کیا جاسکتا ۔ البتہ سپریم کورٹ اپنا صوابدیدی اختیار استعمال کرسکتی ہے۔ جیسے ذوالفقار علی بھٹو کیس، ضابطہ فوجداری میں پرویژن (Provision)نہ ہونے کے باوجود دوبارہ کھول دیا گیا۔ ممکن ہے کہ صولت مرزا کیس میں بھٹو کیس کی ایک اورمثال سامنے آجائے۔اور قانون کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی سینٹرل جیل مچھ کی تاریخ میں ایک اور اضافہ ہو۔